بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفلی طواف میں ٹوپی پہننے کا حکم


سوال

نفلی طواف میں سر ننگا رکھنا افضل ہے یا سر ڈھانپنا ؟ اورعمرہ مکمل ہونے کے بعد سر مونڈنے کے لیے افضل جگہ کون سی ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ ٹوپی پہنناسننِ زوائد میں سے ہے، جس کا درجہ مستحب کا ہے،لہذا نفلی طواف میں بھی افضل یہی ہے کہ ٹوپی پہن کر طواف کیا جائے، اور عمرہ مکمل ہونے کے بعد مروہ پر حلق کرنا افضل ہے، تاہم کٹے ہوئے بالوں کو وہاں پھیلانا درست نہیں،اگر مروہ میں حلق کرنے میں دشواری ہو تو حدودِ حرم میں  جہاں بھی  سہولت ہو سعی کے بعدسر مونڈھ کر احرام کھول دے۔

شرح النووی میں ہے:

"وفيه أنه يستحب أن يكون تقصير المعتمر أو حلقه ‌عند ‌المروة لأنها موضع تحلله كما يستحب للحاج أن يكون حلقه أو تقصيره في منى لأنها موضع تحلله وحيث حلقا أو قصرا من الحرم كله جاز"

‌‌(باب جواز تقصير المعتمر من شعره وأنه لا يجب حلقه، وأنه يستحب كون حلقه أو تقصيره عند المروة)، ج: 8، ص: 231، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتح القدیر میں ہے:

"وأما أن منها ‌الحلق أو التقصير خلافا لمالك - رحمه الله - فيدل عليه ما قدمناه في بحث القران من حديث معاوية «قصرت عن رأس رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بمشقص» ومعلوم أن التقصير ‌عند ‌المروة لا يكون إلا في عمرة"

(باب التمتع، ج: 3، ص: 5، ط: دار الفکر لبنان)

کتاب الاصل میں ہے:

"وأكره له أن يؤخره في حج أو عمرة حتى يخرج من الحرم فإن فعله وحلق في غير الحرم فعليه دم و يجزيه في قول أبي حنيفة ومحمد وقال أبو يوسف لا شيء عليه وإن أخر الحلق في العمرة شهرا غير أنه مقيم بمكة لم يحل حتى يحلق فلا شيء عليه."

(باب الحلق، ج: 2، ص: 431، ط: مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان زمانه، ومكانه فزمانه أيام النحر، ومكانه الحرم."

(فصل الحلق أو التقصير، ج: 2، ص: 140، ط: دار الكتب العلمية)

شعب الایمان میں ہے:

"عن ابن عمررضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلبس قلنسوة بيضاء".

(ج: 5، ص: 175، ط: دار الكتب العلمية، بيروت لبنان)

اخلاق النبی للاصبھانی میں ہے:

"عن ابن عباس، قال : كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث قلانس: قلنسوة بيضاء مضربة، وقلنسوة برد حبرة، وقلنسوة ذات آذان، يلبسها في السفر، وربما وضعها بين يديه إذا صلى".

(ج: 2، ص: 211، ط: دار المسلم للنشر و التوزيع)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں