بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفلی صدقہ کی لاگت / صدقہ کا گوشت خود استعمال کرنا


سوال

 کیا صدقہ  کی کوئی لاگت مقرر ہے؟ اگر ہاں تو کتنی؟ اور صدقہ  کا گوشت گھرمیں خود  کھا سکتے ہیں؟

جواب

1- نفلی صدقہ کی شرعًا کوئی لاگت مقرر نہیں ہے، جس شخص کی جتنی استطاعت ہو، اتنا صدقہ کرسکتا ہے، حدیثِ مبارک میں ہے کہ ’’اتقوا النار و لو بشقِّ تمرۃ‘‘ یعنی جہنم کی آگ سے بچو، اگرچہ کھجور کے ٹکڑے کے ذریعے ہو۔ اس سے معلوم ہواکہ اخلاص سے دی ہوئی آدھی کھجور بھی جہنم سے خلاصی کا سبب بن سکتی ہے، اور جس کی جتنی استطاعت ہو، وہ اسی دائرے میں صدقے کا مکلف ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک مستحق خاتون اپنی دو بچیوں کو لے کر آئی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں کھانے کے لیے اس وقت صرف ایک کھجور ہی موجود تھی،  آپ نے وہ کھجور اس خاتون کو دے دی، اس نے وہ کھجور توڑ کر آدھی آدھی اپنی بچیوں میں تقسیم کردی، رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ قصہ بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: جو بھی ان بچیوں کے ذریعے آزمایا گیا، اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بچیاں اس کے لیے جہنم کی آگ سے حجاب بن جائیں گی۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک موقع پر صدقے کی ترغیب دی گئی تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ کھجور کے چھلکے لے کر حاضر ہوئے؛ کیوں کہ ان کے پاس اس وقت اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

2- نفلی صدقہ  کا گوشت ہر شخص کھا سکتا ہے، خواہ وہ مال دار ہو یا صدقہ دینے والے کا قریبی رشتہ دار ہو۔  البتہ جو شخص کسی وجہ سے نفلی صدقہ نکال رہاہو تو اسے چاہیے کہ اپنے زیرِ کفالت افراد کو اس صدقہ کی چیز نہ کھلائے نہ خود کھائے، بلکہ ایسی صورت میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ کسی مستحق کو دے؛ تاکہ ثواب بھی زیادہ ہو، اگر خو کھالے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

اور اگر صدقہ واجبہ (زکاۃ، صدقہ فطر، کفارہ، فدیہ) ہو تو غیر مستحقِ زکاۃ افراد نہیں کھا سکتے، اسی طرح صدقہ دینے والے شخص کے اصول (والدین، دادا،دادی، نانا، نانی وغیرہ)، فروع (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی، وغیرہ) اور  شوہر یا بیوی بھی نہیں کھا سکتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 339):

"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر، ... (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.

وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة، كما في القهستاني."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 47):

"وكما لايجوز صرف الزكاة إلى الغني لايجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر ؛ لعموم قوله تعالى: ﴿ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ ﴾ [التوبة: 60] وقول النبي صلى الله عليه وسلم : «لا تحل الصدقة لغني» ؛ ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث ؛ لكونه غسالة الناس ؛ لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولا يجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة، والحاجة للفقير لا للغني.

وأما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني ؛ لأنها تجري مجرى الهبة."

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 263):

"وقيد بالزكاة ؛ لأن النفل يجوز للغني كما للهاشمي، وأما بقية الصدقات المفروضة والواجبة كالعشر والكفارات والنذور وصدقة الفطر فلا يجوز صرفها للغني ؛ لعموم قوله عليه الصلاة والسلام : «لا تحل صدقة لغني»، خرج النفل منها ؛ لأن الصدقة على الغني هبة، كذا في البدائع."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں