بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نفلی صدقہ جانوروں پر خرچ کرنا


سوال

کیا میں صدقے کے پیسوں سے اپنی بلیوں کا علاج یا ان کے کھانے کا سامان خرید سکتا ہوں؟

جواب

 چوں کہ نفلی صدقات کے مصارف میں وسعت ہے،  ہر جائز کام میں خرچ کیا جاسکتا ہے؛ اس  لیے نفلی صدقات کا اس مقصد کے لیے استعمال درست ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کا واقعہ سنایا کہ راستے میں جاتے ہوئے اسے سخت پیاس لگی، اسے ایک کنواں نظر آیا، اس نے کنویں میں اتر کر پانی پیا اور کنویں سے باہر نکل آیا، تو اچانک دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہاہے، اس آدمی نے دل میں کہا کہ اسے بھی میری طرح پیاس لگی ہے، چناں چہ وہ کنویں میں اترا  اور (چوں کہ پانی نکالنے کے لیے کوئی برتن ڈول وغیرہ نہیں تھا تو) اپنا چمڑے کا موزہ پانی سے بھرا اور اپنے منہ سے اس موزے کو پکڑا اور (دونوں ہاتھوں کی مدد سے) کنویں سے باہر آکر کتے کو پانی پلایا، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر فرمائی اور اس کی بخشش فرمادی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہمارے لیے ان جانوروں کی خیال داری میں بھی اجر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! ہر تر جگر والے (جان دار کو کھلانے پلانے) میں اجر ہے۔ 

"عن أبي هريرة أن رسول الله ﷺ قال: بينما رجل يمشي بطريق اشتد عليه العطش، فوجد بئرًا فنزل فيها فشرب، ثم خرج فإذا كلب يلهث يأكل الثرى  من العطش، فقال الرجل: لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي كان قد بلغ مني، فنزل البئر، فملأ خفه ماء ثم أمسكه بفيه حتى رقي، فسقى الكلب، فشكر الله له، فغفر له» قالوا: يا رسول الله، إن لنا في البهائم أجرًا؟ فقال: «في كل كبد رطبة أجر". (أخرجه البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب حديث الغار (4/ 173)، رقم: (3467)، ومسلم، كتاب السلام، باب فضل ساقي البهائم المحترمة وإطعامها (4/ 1761)، رقم: (2245)

البتہ صدقاتِ واجبہ مثلاً زکاۃ ، صدقہ الفطر ، نذر، کفارے  وغیرہ  کی رقم اس مصرف میں خرچ کرنا جائز نہیں،  بلکہ وہ رقم مستحقِ زکات افراد تک مالکانہ حقوق کے ساتھ پہنچانا ضروری ہے، اور مستحقِ زکاۃ سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس قرض منہا کرنے کے بعد بنیادی ضرورت اور استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہو اور وہ ہاشمی (سید، عباسی) نہ ہو۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں