بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اکثر علماء کے نزدیک نفلی روزہ بلا عذر توڑنا درست ہے؟


سوال

کیا اکثر علماء کے نزدیک نفلی روزہ کو دن میں کسی بھی حصہ میں بلا عذر توڑا جا سکتا ہے؟

جواب

نفلی روزہ بغیر کسی عذر  (ضیافت یا بیماری وغیرہ)کے توڑنا ظاہرِ روایت کے مطابق پسندیدہ نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں نیک عمل کو باطل کرنا ہے، ہاں کوئی عذر ہو تو توڑ دینے کی اجازت ہے، بہر صورت عذر ہو  یا نہ ہو نفلی روزہ توڑنے سے ایک روزہ کی قضا کرنا لازم ہوتا ہے، اس کے علاوہ نفلی روزہ توڑنے والے پر کفارہ لازم نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ بات کہنا درست نہیں ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک نفلی روزہ کو بلا عذر توڑنا درست ہے، تاہم ملحوظ رہے کہ یہاں عذر سے مراد صرف بیماری یا سفر شرعی نہیں ہے، بلکہ نفلی روزے دار اگر کسی کے ہاں مہمان بن کر جائے اور میزبان کھانے پر اصرار کرے بصورتِ دیگر وہ محسوس کرے، یا میزبان کا نفلی روزہ ہو اور مہمان کے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہونے پر وہ محسوس کرے تو نفلی روزہ توڑنے کے لیے یہ بھی معتبر شرعی عذر ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح، کتاب الصوم، باب، قبل باب لیلة القدر، (ص:181) ط: قدیمي:

"عن الزهري عن عروة عن عائشة قالت: کنت أنا و حفصة صائمتین، فعرض لنا طعام اشتهیناه، فأکلنا منه، فقالت حفصة: یارسول الله إنّا کنّا صائمتین، فعرض لنا طعام اشتهیناه، فأکلنا منه، قال: اقضیا یوماً آخر مکانه. رواه الترمذي وذکر جماعةً من الحفاظ".

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میرا اور حفصہ کا (نفلی روزہ) تھا، ہمارے سامنے مرغوب کھانا آیا تو ہم دونوں نے اس میں سے کھالیا، پھر حفصہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: ہم دونوں روزے سے تھے، ہمارے سامنے مرغوب کھانا آیا تو ہم نے کھالیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم دونوں اس کی جگہ ایک روزے کی قضا کرلینا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 428):
"(ولايفطر) الشارع في نفل (بلا عذر في رواية) وهي الصحيحة، وفي أخرى: يحل بشرط أن يكون من نيته القضاء، واختارها الكمال وتاج الشريعة وصدرها في الوقاية وشرحها.

(قوله: وهي الصحيحة) وهي ظاهر الرواية كما في المنح وغيرها؛ فلايحسن أن يعبر عنها برواية بالتنكير لإشعاره بجهالتها، وكان حق العبارة أن يقول: إلا في رواية فيقرر ظاهر الرواية، ثم يحكي غيره بلفظ التنكير كما يفيده قول الكنز: وللمتطوع الفطر بغير عذر في رواية، فأفاد أن ظاهر الرواية غيرها، رحمتي". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109201633

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں