بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نفلی قربانی کے حصے کی رقم تمام شرکاء سے لینا


سوال

اگر گائے  قربان کرنی ہے، اس کے پانچ شریک ہیں، اب یہ چاہتے ہے کہ جو حصے بچے ہیں، یہ حضورﷺ اور دوسرے کسی بزرگ کے نام پر شامل  کریں اوران دو حصوں کے پیسے سارے شریک دیں گے، کیا یہ درست ہے؟

جواب

قربانی کے بڑے جانور (مثلا گائے، بیل، بھینس اور اونٹ یا اونٹنی) میں ایک سے لے کر سات تک حصے کیے جاسکتے ہیں، لیکن سات سے زیادہ حصے کرنا جائز نہیں ہیں، یعنی کسی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم رکھنا جائز نہیں ہے، ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی۔ ساتویں حصے سے کم ہونے کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک جانور میں سات سے زائد افراد شریک ہوجائیں، مثلاً ایک بڑے جانور میں آٹھ افراد شریک ہوجائیں تو ہر شریک  کا حصہ  ساتھویں  حصہ سے کم ہوگا اور کسی بھی شریک کی قربانی صحیح نہیں ہوگی، اورساتویں حصے سے کم ہونے کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شریک نے ایک حصہ سے کم مثلاً: آدھا یا تہائی حصہ لیا ہے تب بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔ اسی طرح بڑے جانور ( مثلاً: گائے  وغیرہ ) کے ایک حصے میں قربانی کی نیت سے ایک سے زائد افراد شریک نہیں ہو سکتے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں قربانی کی گائے میں شریک پانچ افراد کا بقیہ دوحصے نبی کریم ﷺاور کسی بزرگ کے نام سے شامل کرنااجروثواب کا باعث ہے، لیکن ان دوحصوں کی پانچ افراد کی جانب سے مشترکہ طور پر نیت کرنا درست نہیں، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہیہ پانچوں افراد مل کر دو حصوں کی رقم جمع کرکے ان دو حصوں کی رقم کسی ایک یا دو آدمیوں کو ہبہ (گفٹ) کردیں، پھر یہ ایک یا دو آدمی اپنی طرف سے یہ دوحصے شامل کرکے اس نفلی قربانی کی رقم  حضور ﷺ یا دیگر مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لیے دے دیں۔ اس سے قربانی کرنے والوں  کو بھی ثواب ملے گا اور ان شاء اللہ باقی شرکاء (جنہوں نے اپنے حصے کی رقم ہبہ کردی ہے وہ) بھی پورے ثواب کے حق دار ہوں گے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

'' وأما قدره فلايجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر، فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لايذبح من أمته، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟(فالجواب): أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء''.

(5/70، كتاب الأضحیه، ط: سعید)

الفتاوى الهندية (5/ 304):

والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة. 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں