بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفلی نماز میں تلاوت کے ساتھ اردو ترجمہ پڑھنا


سوال

نفلی نماز میں خیالات نہ بھٹکیں اور نماز میں خشوع پیدا کرنے کے لیے عربی کے ساتھ ساتھ اردو ترجمہ بھی زبان سے ادا کرنے سے نماز ادا ہوگی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر نماز میں قرآنِ کریم کی تلاوت کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ بھی زبان سے ادا جائے تو نماز ادا نہیں ہوگی خواہ فرض نماز ہو یا نفل وغیرہ۔

فتاوی دار العلوم دیوبند (2/167) میں ہے:

’’قراءۃِ قرآن میں مقصود اصل دونوں  ہیں، لفظ بھی اور معنی بھی، اور قرآن نام ہے اس کلام اور عبارتِ خاص کا جو کہ  مکتوب فی المصاحف ہے، اور عربی زبان میں ہے:قال اللہ تعالی: {انا انزلناہ قراناً عربیاً لعلم تعقلون} پس جونظم عربی نہیں ہے وہ قرآن نہیں  ہے اور نہ حکم تلاوتِ قرآن کا اس پر صادق آتا ہے اور نہ وہ ثواب حاصل ہوسکتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من قرأ حرفاً من کتاب اللہ فله به حسنة والحسنة بعشر أمثالھا، لا أقول: الم حرف،  الف حرف ولام حرف ومیم حرف. رواہ الترمذی وغیرہ عن ابن مسعود رضي الله عنه.

شامی میں ہے:

لأن الإمام رجع إلی قولهما في اشتراط القراءة بالعربیة؛ لأن المأمور به قراءۃ القرآن و هو اسم للمنزل باللفظ العربي المنظوم هذا النظم الخاص المكتوب في المصاحف المنقول إلینا نقلاً متواتراً الخ.

اس کا حاصل یہ ہے کہ امام صاحب اور صاحبین اس میں متفق  ہوگئے ہیں کہ نماز میں قراءۃِ قرآن ان ہی کلماتِ عربیہ کے ساتھ ہونی چاہیے جو کہ حقیقتًا قرآن ہے اور مصاحف میں لکھا ہوا ہے۔الی آخرہ۔

الحاصل نماز کے اندر ترجمہ قرآن شریف کا پڑھنے سے نماز نہ ہوگی؛ کیوں کہ نماز میں قراءۃِ قرآن شریف فرض ہے اور قرآن نام نظم عربی کا ہے، ترجمہ کو قرآن نہیں کہاجاتا  مگر مجازاً۔کما قال في  ردالمحتار:

والأ عجمي إنما یسمی قرا ناً مجازاً و لذایصح نفي اسم القران عنه ... الخ.  شامی.فقط۔‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201190

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں