بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نفلی حج بدل کا بیان


سوال

میں   نے اپنی اہلیہ کے ساتھ آج سے 28 سال پہلے حج کیا تھا،اس کےبعد آج سے تقریبا8 سال پہلے ہم دونوں میاں بیوی نے سوچا تھاکہ ایک اور حج کرلیں ،تاکہ  اٹھائیس سال پہلے حج میں جو غلطی ہوئی ہو،وہ اس میں دور ہوجائے،ویسے اپنی طرف سے حج صحیح طور پر ادا کیاتھا،البتہ احتیاطاً میں نے اور بیوی نے یہ سوچا تھاکہ ہم  دوبارہ حج کرلیں ،مگر اس وقت میری اہلیہ کےانتقال کے  چار سال ہوچکے ہیں،لہذا میں اپنا اور اہلیہ کا حج بدل کرانا چاہتاہوں ۔

اب آپ سے سوال یہ ہےکہ حج بدل کے لیے اس شخص کا ہوناضروری ہے جس نے پہلے حج کیاہویا کوئی شخص بھی حج کراسکتاہے؟اور  جس شخص کو میں حج بدل کے لیے بھیج رہاہوں ،تو کیا اس کی اہلیہ کو اپنی اہلیہ کی طرف سےحج بدل کے لیے بھیج سکتاہوں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی کی طرف سے نفلی حج ادا کرنے کےلیے شرط یہ ہے کہ حج بدل کرنے والا اور کرانے والا دونوں مسلمان ہوں اور حج بدل کرنے والا عاقل اور صاحب شعور ہو،حج کے تمام اخراجات  بھیجنے والے کے ذمہ ہوں گے،اور حج کرنے والے کے لیے   الگ کوئی اجرت مقرر نہیں ہوتی۔

صورتِ مسئولہ میں سائل جن دوآدمیوں کو اپنی اور اپنی اہلیہ کی طر ف سے نفلی حج بدل کے لیے بھیجنا چاہتاہے، ان  کا مسلمان ،عاقل اور صاحب شعور ہوناضروری ہے ، حج کے تمام اخراجات آنے جانے کا ٹکٹ، وہاں کی رہائش ،اور جتنا خرچہ حج کے سفر کے دوران آتاہو،و ہ سب حج پر بھیجنے والے کے ذمہ ہوں گےاورحج پر جانے والے کے لیے کوئی  اجرت متعین نہیں ہوگی، جب سائل اور اس کی اہلیہ کی طرف سے نفلی حج کیا جائے گا تو اس کا ثواب  سائل اور اس کی اہلیہ کو پہنچ جائےگا۔

نیز  کسی کی طرف سے نفلی حج کرنے میں یہ ضروری نہیں ہے کہ اس نے پہلے حج کیا ہو ،اگر کسی نے پہلے حج نہ بھی کیاہوتو وہ کسی دوسرے کی طرف سے بلاکراہت نفلی حج کرسکتاہے،اب سائل جس کواپنی طرف سے  نفلی حج بدل پر بھیجنا چاہتاہے، اگر اس نے پہلے حج نہ بھی کیا ہوتو اب سائل کی طرف سے اس کا حج کرنا بلاکراہت صحیح ہے،اور جس کو سائل اپنی طرف سے نفلی حج پر بھیجنا چاہتاہےتو اس کی اہلیہ کو اپنی مرحومہ اہلیہ کی طرف سے بھیج سکتاہے ،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف ما لو أهل بحج عن أبويه أو غيرهما من الأجانب حال كونه (متبرعاً فعين بعد ذلك جاز)؛ لأنه متبرع بالثواب فله جعله لأحدهما أو لهما، وفي الحديث: "من حج عن أبويه فقد قضى عنه حجته، وكان له فضل عشر حجج، وبعث من الأبرار".

(كتاب الحج ،باب الحج عن الغير،ج: 2،ص: 608،ط: سعيد)

وفيه أيضا:

"وهذه الشرائط كلها في الحج الفرض، وأما النفل فلا يشترط فيه شيء منها: إلا الإسلام والعقل والتمييز، وكذا الاستئجار."

(ردالمحتار،مطلب شروط الحج عن الغير عشرون، ج: 2، ص: 601، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) أن يكون حج المأمور بمال المحجوج عنه فإن تطوع الحاج عنه بمال نفسه لم يجز عنه حتى يحج بماله."

(كتاب الحج ، الباب الرابع عشر في الحج عن الغير، ج: 1،ص: 257، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100781

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں