بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفلی اعتکاف کے لیے روزہ کی شرط کا حکم


سوال

نفلی اعتکاف ایک دن کا کرنا ہو تو روزے دو دن کے رکھنے ہوں گے یا ایک دن کا؟

جواب

نفلی اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں ہے، روزہ کے بغیر بھی نفلی اعتکاف بلاکراہت ادا ہوجاتا ہے۔

روزہ رکھنا واجب اعتکاف میں اور رمضان المبارک کے سنت اعتکاف (آخری عشرے کے اعتکاف) میں شرط ہے، اسی طرح اگر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کامسنون اعتکاف ٹوٹ جائے تو صرف اُس ایک دن کی قضا واجب ہوتی ہے جس دن کا اعتکاف ٹوٹا ہے،  پھر ایک دن کی قضا چاہے رمضان میں کرے یا رمضان کے بعد روزے کے ساتھ کرے دونوں صورتیں صحیح ہیں، ایک دن کی قضا میں رات اور دن دونوں کی قضا لازم ہوگی، اس کا طریقہ یہ ہے کہ   کسی دن قضا کی نیت  سے مغرب سے پہلےمسجد میں اعتکاف کرلیا جائے، اور اگلے دن صبح روزہ بھی رکھاجائے اور مغرب کی نماز کے بعد اعتکاف ختم ہوجائے گا، یہ ایک دن کے نذر کے اعتکاف کا طریقہ ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مسنون اعتکاف کی قضا ہو یا ایک دن نذر کا اعتکاف ہو، اس میں ایک ہی دن  روزہ رکھنا لازم ہوگا، اور نفلی اعتکاف میں روزہ لازم نہیں ہے، اگر ایک دن نفلی اعتکاف میں روزہ بھی رکھا جائے تو  زیادہ ثواب کا باعث ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 323):

(قوله: وأقله نفلًا ساعةً) لقول محمد في الأصل إذا دخل المسجد بنية الاعتكاف فهو معتكف ما أقام تارك له إذا خرج فكان ظاهر الرواية واستنبط المشايخ منه أن الصوم ليس من شرطه على ظاهر الرواية؛ لأن مبنى النفل على المسامحة حتى جازت صلاته قاعدا، أو راكبا مع قدرته على الركوب والنزول ونظر فيه المحقق في فتح القدير بأنه لايمتنع عند العقل القول بصحة اعتكاف ساعة مع اشتراط الصوم له وإن كان الصوم لا يكون أقل من يوم وحاصله أن من أراد أن يعتكف فليصم سواء كان يريد اعتكاف يوم، أو دونه ولا مانع من اعتبار شرط يكون أطول من مشروطه ومن ادعاه فهو بلا دليل فهذا الاستنباط غير صحيح بلا موجب فالاعتكاف لايقدر شرعًا بكمية لاتصح دونها كالصوم بل كل جزء منه لايفتقر في كونه عبادةً إلى الجزء الآخر ولم يستلزم تقدير شرطه تقديره. اهـ.
ولايخفى أن ما ادعاه أمر عقلي مسلم وبهذا لا يندفع ما صرح به المشايخ الثقات من أن ظاهر الرواية أن الصوم ليس من شرطه وممن صرح به صاحب المبسوط وشرح الطحاوي وفتاوى قاضي خان والذخيرة والفتاوى الظهيرية والكافي للمصنف والبدائع والنهاية وغاية البيان والتبيين وغيرهم والكل مصرحون بأن ظاهر الرواية أنالصوم ليس من شرطه
."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں