بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفاس کی حالت میں نکاح اور جماع سے تحلیل کا حکم


سوال

دوران نفاس حلالہ کے لیے نکاح اور جماع کر لیا تو کیا یہ جماع حلالہ کے لیے کافی ہے؟ اور حلالہ ہو جائے گا ؟

جواب

صورت مسئولہ میں نفاس کے دوران اگر نکاح کر لیا تو نکاح ہو جائے گا۔  البتہ نفاس کی حالت میں   شرعاً جماع کی اجازت نہیں  ہے، بلکہ یہ حرام ہے  اور اگر جماع کرلیا ہو  تو توبہ و استغفار کرے، اور  استطاعت ہو تو ایک دینار یا آدھے دینار کے برابر صدقہ کرے۔تاہم  اگر مذکورہ شخص فوت ہو جاتا ہے، یا طلاق دے دیتا ہے تو مطلقہ عدت گزار کر سابقہ شوہر  سے  نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، جائز ہے۔

الدر المختار وحاشيۃ ابن عابدين میں ہے:

"(قوله: ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعاً «في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار»، ثم قيل: إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل: بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه: «إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دماً أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار»."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج: ۱، صفحہ: ۲۸۹، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضاً:

"وأما نحو الحيض والنفاس والإحرام والظهار قبل التكفير فهو مانع من حل الوطء لا من محلية العقد فافهم".

(کتاب النکاح، ج: ۳، صفحہ: ۴، ط: ایچ، ایم، سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"فأما جماع الحائض في الفرج حرام بالنص يكفر مستحله ويفسق مباشره لقوله تعالى: { فاعتزلوا النساء في المحيض } وفي قوله تعالى: { ولاتقربوهن حتى يطهرن } دليل على أن الحرمة تمتد إلى الطهر وقال صلى الله عليه وسلم: {من أتى امرأة في غير مأتاها أو أتاها في حالة الحيض أو أتى كاهنًا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل الله على محمد صلى الله عليه وسلم} ولكن لا يلزمه بالوطء سوى التوبة والاستغفار ومن العلماء من يقول: إن وطئها في أول الحيض فعليه أن يتصدق بدينار وإن وطئها في آخر الحيض فعليه أن يتصدق بنصف دينار وروى فيه حديثا شاذا ولكن الكفارة لا تثبت بمثله (وحجتنا) في ذلك ما روي أن رجلا جاء إلى الصديق - رضي الله عنه - وقال: إني رأيت في المنام كأني أبول دما فقال: أتصدقني قال: نعم قال: إنك تأتي امرأتك في حالة الحيض فاعترف بذلك فقال أبو بكر - رضي الله عنه -: استغفر الله ولا تعد ولم يلزمه الكفارة".

(كتاب الاستحسان، جماع الحائض في الفرج، ج: ۱۰، صفحہ: ۱۵۸و۱۵۹، ط: دار المعرفة - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں