بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفل نماز یا روزہ رکھنے کی نذر کا شرعی حکم


سوال

اللہ تعالیٰ سے منت ماننا کہ میرا یہ کام ہوجاے تو نفل پڑھوں گا یا روزہ رکھوں گا، اس منت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر نذر شریعت کے مطابق درست ہے تو نذر کے پوری ہونے کے بعد نذر کے مطابق عمل کرنا واجب ہے، مثلا کسی مریض نے نذر مانی کہ: اگر اللہ تعالیٰ مجھ کو فلاں مرض سے شفاء دے دیں تو میں حج کروں گایا روزہ رکھوں گا،تو اس مرض سے شفاء یاب ہونے کے بعدنذر کے مطابق حج کرنا یا روزہ رکھنا واجب ہوگا۔

لہذا صورت مسئولہ میں اللہ تعالیٰ سے منت ماننے کے بعد جس کام کے لئے نذر کو معلق کیا، اگر وہ کام ہوجائے تو اس منت کو پورا کرنا شرعاً واجب ہوگا یعنی نفل پڑھنا یا روزہ رکھنا واجب ہوگا۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے:

ولیوفوا نذورھم۔ (الحج: 29)

الفتاوی الہندیۃ میں ہے:

" وكذا لو قال: علي حجة سواء كان النذر مطلقا أو معلقا بشرط، بأن قال إن فعلت، كذا فلله علي أن أحج حتى يلزمه الوفاء إذا وجد الشرط ولا يخرج بالكفارة في ظاهر الرواية۔"

(کتاب الحج، الباب السابع عشر فی النذر بالحج: 1/ 262، ط: رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

" ومن نذر نذراً مطلقاً أو معلقاً بشرط وکان من جنسه واجب أی فرض… وهو عبادة مقصودة… ووجد الشرط… لزم الناذر کصوم وصلاة۔"

(کتاب الأیمان، مطلب فی احکام النذر: 3/ 735،ط: سعید)

کتاب الفقه علی المذاھب الاربعة:

" ویشترط لصحة النذر سبعة شروط: الأول أن یکون من جنس المنذور فرض أو واجب اصطلاحی علی الأصح کالصوم والصلاۃ والصدقة، فإذا نذر أن یصوم تطوعاً فإنه یجب علیه الوفاء… وکذا إذا نذر أن یصلی نافلة فإنه یجب علیه الوفاء لأن الصلاة من جنسها واجب وهو الصلوات الخمس۔"

(کتاب الیمین، مباحث النذر: 2/ 145، ط: داراحیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101973

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں