بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفل روزے کی افطاری میں تاخیر کرنا


سوال

ہمارے کچھ دوست کہتے ہیں کہ نفل روزے میں افطار بعد نماز مغرب کرنا چاہیے، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

حدیث شریف میں آتا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ اس وقت تک خیر میں رہیں گے جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔ یعنی غروب کا یقین ہوتے ہی افطار کریں گے۔ اس حدیث میں فرض اور نفل میں کوئی فرق بیان نہیں کیا گیا، اس لیے محدثینِ کرام اور فقہاءِ عظام  نے لکھا ہے کہ جیسے ہی سورج ہونے کا یقین ہو جائے تو فوراً روزہ کھول لینا چاہیے، اس میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے، نیز افطاری میں تاخیر کرنا چوں کہ اہلِ کتاب کا طریقہ تھا اس لیے اُن سے مخالفت کے اظہار کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے۔

البتہ اگر سائل کے دوستوں کا مقصد یہ ہے کہ نمازِ مغرب سے پہلے صرف کھجور پانی وغیرہ سے روزہ افطار کرلیا جائے، اور افطار میں جو کچھ کھایا جاتا ہے وہ باجماعت نماز کے بعد کھایا جائے، تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ بہتر طریقہ ہے۔

صحيح البخاري (3/ 36):

عن سهل بن سعد: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر».

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 1381):

 (وعن سهل قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " لا يزال الناس بخير ") أي موصوفين بخير كثير أو المراد بالخير ضد الشر والفساد " ما عجلوا الفطر " أي ما داموا على هذه السنة، ويسن تقديمه على الصلاة للخبر الصحيح به، قال التوربشتي: فإن في التعجيل مخالفة أهل الكتاب فإنهم يؤخرونه إلى اشتباك النجوم أي اختلاطها، ثم صار عادة لأهل البدعة في ملتنا اهـ.

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144202200105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں