بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفع میں فیصد کے اعتبار سے کمیشن طے کرنے کا حکم


سوال

ہمارا اسٹیٹ ایجنسی کا کام ہے اور لوگوں کو کمیشن پرجگہ دلاتے ہیں اور کمیشن لے کر لوگوں کی جگہیں بکواتے ہیں۔ بعض مرتبہ ہم اپنی پارٹیوں سے یوں معاملہ کرتے ہیں کہ ہم ان کو جگہ دلاتے ہیں اور اس پر کوئی کمیشن نہیں لیں گے، پھر اس کے بعد جتنے بھی اس جگہ کے متعلق کام ہوں گے مثلا کاغذی کاروائی یا پھر رقم کی ادائیگی کی ترتیب بنانا وغیرہ وہ ہم کرتے ہیں۔ سرمایہ مکمل ہماری پارٹی کا لگا ہوا ہوتا ہے۔ پھر جب وہ جگہ بکتی ہے اور اس پر جو نفع ہوتا ہے اس کا ۲۵ فیصد ہم مزدوری کے طور پر لیتے ہیں۔ مثال کے طور ہم نے ایک پراپرٹی ہے ۲ کروڑ کی دلوائی اور پھر  سوا دو کروڑ میں بک گئی تو پچیس لاکھ کا نفع ہوا تو ہم پارٹی سے ساڑھے چھ لاکھ روپے مزدوری لیں گے۔ کیا اس طرح مزدوری لینا ہمارے لیے درست ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کا اپنی پارٹیوں سے یوں معاملہ کرنا کہ سائل  ان کو جگہ دلوا ئے گا، پھر اس کے جگہ کے متعلقہ چند کام سائل کرے گا اور بیچنے کے بعد جو نفع حاصل ہوگا سائل اس میں سے ۲۵ فیصد اپنی کمیشن (اجرت)  وصول کرے گا ،یہ معاملہ شرعا جائز نہیں ہے اور اجارہ فاسدہ ہے کیونکہ اس صورت میں سائل کی اجرت مجہول ہے، ممکن ہے نفع زیادہ ہو تو  اس کا ۲۵ فیصد زیادہ ہوگا، ہوسکتا ہے نفع کم ہو تو اس کا ۲۵ فیصد کم ہوگا اور ہوسکتا ہے نفع نہ ہو اور نقصان ہوجائے تو اس صورت میں کوئی اجرت نہیں ملے گی۔اس طرح جہالت کے ساتھ کمیشن  طے کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔مذکورہ صورت میں درست طریقہ یہ ہے کہ سائل اپنی پارٹی سے اپنا کمیشن یوں طے کر لے  کہ اس جگہ کی خریداری اور اس کے بکوانے  پر اتنی متعین رقم کمیشن میں لوں گا (مثلا ایک لاکھ یا دو لاکھ وغیرہ) یا  قیمت خرید اور قیمت فروخت پر  اتنا فیصد کمیشن لوں گا،یا خریدتے وقت پارٹی کے ساتھ اسٹیٹ ایجنسی والا  بھی کچھ رقم شامل کر لے  اور نفع میں 25 فیصد مقرر کرے  تو درست ہو گا،اس صورت میں کمیشن لینا درست نہیں ہو گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وهو أن تكون الأجرة مالا متقوما معلوما وغير ذلك مما ذكرناه في كتاب البيوع.

والأصل في شرط العلم بالأجرة قول النبي صلى الله عليه وسلم «من استأجر أجيرا فليعلمه أجره» والعلم بالأجرة لا يحصل إلا بالإشارة والتعيين أو بالبيان وجملة الكلام فيه أن الأجر لا يخلو إما إن كان شيئا بعينه وإما إن كان بغير عينه....وإن كان بغير عينه فإن كان مما يثبت دينا في الذمة في المعاوضات المطلقة كالدراهم، والدنانير والمكيلات، والموزونات، والمعدودات المتقاربة، والثبات لا يصير معلوما إلا ببيان الجنس، والنوع من ذلك الجنس، والصفة والقدر إلا أن في الدراهم، والدنانير إذا لم يكن في البلد إلا نقد واحد لا يحتاج فيها إلى ذكر النوع، والوزن ويكتفى بذكر الجنس ويقع على نقد البلد، ووزن البلد وإن كان في البلد نقود مختلفة يقع على النقد الغالب وإن كان فيه نقود غالبة لا بد من البيان فإن لم يبين فسد العقد."

(کتاب الاجارۃ، فصل فی انواع شرائط رکن الاجارۃ، ج نمبر۴، ص نمبر  ۱۹۴، دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرةأو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد أشباه

(قوله أو مدة) إلا فيما استثنى: قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلا يستخرج منه كثير من المسائل فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي."

(کتاب الاجارہ،باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج نمبر۶ ص نمبر ۴۶،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]

قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(کتاب الاجارہ ،باب الاجارۃ الفاسدۃج نمبر۶ ص نمبر ۶۳،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101909

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں