بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیوی کو مال کے عوض طلاق دینا


سوال

ایک شوہر کی اپنی  بیوی سے یہ شکایت ہے کہ بیوی شوہر کے کہنے کے باوجود اپنے کمرے میں وقت پر نہیں آتی قریب کمرے میں بیٹھی رہتی ہے رات کو دو بجے تک کبھی اس سے زیادہ کبھی کم وقت پر اس خیال سے کہ شوہر سو جائے پھر جاؤں گی اور یہ رویہ شادی کے بعد سے اکثر ہو رہا ہے، شوہر نے تنگ آکر دو مرتبہ کمرے کا دروازہ بھی بند کیا ، بیوی کے اس رویہ کے گواہ شوہر کے والدین اور بہن بھائی سب ہیں، جب کہ بیوی اپنے والدین کے سامنے اس سے انکار کرتی ہے اور قسم کھانے کے لیے تیار ہے۔

اس صورت میں شریعت کا حکم کیا ہے کیا شوہر مجبوراً طلاق دے یا بیوی کو خلع لینی چاہیے ، یہ بات بھی واضح رہے کہ بیوی تین چار ماہ سے اپنے والدین کے گھر پر ہے بیماری کا بہانہ بنا کر گئی تھی اور واپس نہیں آئی، بیوی کے والدین کا کہنا یہ ہے کہ شوہر والے فوراً آکر لے جائیں اور آئندہ کے لیے ہمیں ضمانت دیں کہ شوہر کے گھر والے ان کے ساتھ حسن سلوک کریں گے ،کیونکہ اب تک شوہر سمیت تمام گھر والوں کا رویہ ان کے ساتھ ظالمانہ ہے ،جب کہ شوہر کے گھر والوں کا کہنا یہ ہے کہ ہمارا ظلم ثابت کر دو تو ہم معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں۔

 نیز شوہر یہ چاہتا ہے کہ اسے مہر دینا نہ پڑے تو کیا ایسی صورت میں شوہر طلاق کے بدلے میں مہر روک سکتا ہے یا نہیں کیونکہ مہر کی رقم زیادہ ہے؟  یا مہر کے بدلے عورت کو خلع دے سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ خوش گوار ازدواجی زندگی بسر کرنے کے  لیے لازمی ہے کہ  میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں، ایک دوسرے کے حقوق  کی ادائیگی کی فکر کریں  اور حتی الامکان یہ کوشش کی جائے کہ طلاق اور جدائیگی کی نوبت نہ آئے کیوں کہ شریعت کی نظر  میں طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے حدیث شریف میں  طلاق کو ابغض المباح کہا گیا ہے یعنی جتنی چیزیں حلال ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق سب سے ناپسندیدہ چیز ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر شوہر کے گھروالوں کی بات درست ہے اور بیوی باوجود شوہر کے بلانے کے اسکے پاس نہیں جاتی تو گناہ گار ہوتی ہے ایسی عورتوں کے بارے میں احادیث طیبہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جب کسی شوہر نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا اور وہ نہ آئی، پھر اسی طرح غصہ میں اس نے رات گزاری تو صبح تک سارے فرشتہ اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔

اسی طرح ترمذی شریف میں حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب کوئی مرد اپنی بیوی کو  اپنی حاجت کے لیے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے، اگر چہ تنور پر روٹی بنارہی ہو ( تب بھی چلی آئے)۔ 

بیوی کے والدین کا کہنا یہ ہے کہ شوہر والے حسنِ سلوک کے وعدے اور ضمانت کے ساتھ بیوی کو واپس لے جائیں تو شوہر اور اس کے گھر والوں کو چاہیے کہ وہ پرانے جھگڑوں کو بھلا کر اب حسنِ سلوک کے وعدے کے ساتھ بیوی کو واپس شوہر کے پاس لے آئیں ؛تاکہ دونوں کا گھر بس جائے اور طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، اور لڑکی والے بھی لڑکی کو شوہر کے حقوق کی ادائیگی کا پابند بنائیں، لیکن اگر  تمام کوششوں کے باوجود نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے تو شوہر بیوی کو ایک طلاق دے دے ، پھر جب بیوی کی عدت پوری ہو جائے گی تو بیوی شوہر کی زوجیت سے نکل جائے گی، لیکن اس صورت میں شوہر پر  لازم ہو گا کہ مہر کی مکمل رقم  بیوی کو ادا کرے،البتہ اگر بیوی خود  مہر کی رقم کے بدلے خلع کا مطالبہ کرے اور شوہر اس کو قبول کر لے یا شوہر مہر کے بدلے طلاق دےدے اور بیوی اسے قبول کر لے تو ایسی صورت میں شوہر پر مہر کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی،قصور اگر عورت کا ہو تو شوہر طلاق یا خلع بعوض حق مہر دے سکتا ہے ۔

ہدایہ مع فتح القدیر میں ہے:

"وأما وصفه فهو أبغض المباحات إلى الله تعالى على ما رواه أبو داود وابن ماجه عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إن أبغض المباحات عند الله الطلاق» فنص على إباحته وكونه مبغوضا".

(كتاب الطلاق،3/ 464،ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) بيان ما يتأكد به المهر فالمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة:الدخول والخلوة الصحيحة وموت أحد الزوجين".

(كتاب النكاح،فصل :وأما بيان ما يتأكد به المهر2/ 291،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"ما جاز أن يكون مهرا جاز أن يكون بدلا في الخلع كذا في الهداية".

(كتاب الطلاق،الباب الثامن في الخلع وما في حكمه،الفصل الثاني فيما جاز أن يكون بدلا عن الخلع وما لا يجوز1/ 494،ط:رشيدية)

وفیہ ایضاً: 

"إن طلقها على مال فقبلت وقع الطلاق ولزمها المال وكان الطلاق بائنا كذا في الهداية".

(الفصل الثالث في الطلاق على المال1/ 495،أيضاً)

بخاری شریف میں ہے: 

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان عليها ‌لعنتها ‌الملائكة حتى تصبح»".

(كتاب بدء الخلق،‌‌باب إذا قال أحدكم: آمين والملائكة في السماء، آمين فوافقت إحداهما الأخرى، غفر له ما تقدم من ذنبه4/ 116)

ترمذی شریف میںہے:

"عن قيس بن طلق، عن أبيه طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا ‌الرجل ‌دعا ‌زوجته لحاجته فلتأته، وإن كانت على التنور»".

(‌‌أبواب الرضاع،باب ما جاء في حق الزوج على المرأة3/ 457)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144304100310

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں