بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیوی کے نفقہ کاحکم


سوال

نکاح فارم میں لڑکی والوں نے ناچاقی کی صورت میں خرچہ لکھوایا  ،دونوں خاندانوں میں جھگڑا ہوا اور لڑکی کو اس کے گھر والے اپنے ساتھ لےگئے،  شوہر نے لے جانے سے بھی روکا ،لیکن انہوں نے کوئی بات نہیں سنی اور بعد میں بھی شوہر نے ہر طرح سے اپنی بیوی کو واپس لانے کی کوشش کی  ،لیکن وہ نہیں آئی ،اب 15 ماہ گزر چکے ہیں، شوہر نے پھر بیوی کو واپس لانے کی کوشس کی تو لڑکی والے 15 ماہ کا خرچہ مانگ رہے ہیں جو نکاح فارم میں لکھوایا تھا ،لڑکے نے انکار کردیا کہ آپ لوگوں نے اپنی بیٹی کو اپنی مرضی سے رکھا ، جب میں لینے آیا تو نہیں آنے دیا  ،اب خرچہ کس چیز کا مانگ رہے ہو ؟تو انہوں نے کہا بیوی تمہاری ہے تو اس کا خرچہ بھی تم پر لازم آتا ہے ،جو ہم نے کیا ہے 15 ماہ میں وہ دو پھرہم  بھیجیں گے ،تو کیا مجھ پر ان 15 ماہ کا خرچہ لازم آتا ہے یا نہیں؟

جواب

نکاح نامہ میں مہر کے علاوہ جو شرطیں لکھی یا لگائی جاتی ہیں ،اگر وہ شرائط شریعت کے موافق ہوں تو ا ان کو پوراکرنا لازم  ہے ،اور اگر وہ شرائط شریعت کے موافق نہ ہوں تو ان کہ پورا کرنا لازم نہیں ہوتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں بشرط صحت سوال  اگر  چہ  نا جاقی کی صورت میں خرچہ اور نان نفقہ کےدینے کی شرط لگائی گئی تھی، لیکن اگر  آپ کی بیوی واقعی آپ کی طرف سے ظلم وستم کے بغیر آپ کی  اجازت کے بغیر  نا حق طور پر میکے میں رہ رہی ہے، وہ آپ کےبلانے کے باوجود آپ کے  ساتھ  گھر میں رہنا نہیں چاہتی تو  باوجود مذکورہ معاھدہ شرعاً  آپ کی بیوی کا خرچہ آپ پر   واجب نہیں تھا ،لہذا سسرال والوں کا گزشتہ زمانے کے خرچہ کا مطالبہ کرنےکا  شرعا حق نہیں ۔ البتہ  اگر شوہر  خود اپنی طرف سے دینا چاہے،تو دے سکتا ہے،لیکن اس پر شرعاً لازم نہیں 

مجمع الأنھرمیں ہے:

"ولا نفقة لناشزة أي:عاصیة ما دامت علی تلک الحالة …… خرجت الناشزة من بیتہ ……بغیر حق وإذن من الشرع، قید بہ ؛لأنھا لو خرجت بحق کما لو خرجت ؛لأنہ لم یعط لھا المھر المعجل ……لم تکن ناشزة."

( کتاب الطلاق،باب النفقة،١٧٩/٢، ۱۸۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لكن لا نفقة إلخ) لأنها جزاء الاحتباس، ولذا لم تجب نفقة ‌الناشزة والحاجة مع غير الزوج والمغصوبة والمحبوسة بدين عليها رحمتي، وعطف السكنى على النفقة عطف خاص على عام لأن النفقة اسم لها وللطعام والكسوة."

(كتاب النكاح،‌‌باب نكاح الرقيق هو المملوك كلا أو بعضا،١٧١/٣دار الفكر)

البنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے:

"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله؛ لأن فوت الاحتباس منها) ش: تفسير ‌الناشزة والناشصة هي المانعة نفسها عن زوجها بغير حق، وقيل لشريح: هل للناشزة من نفقة؟ فقال: نعم، فقيل: كم؟ فقال: جراب من تراب، معناه: لا نفقة لها."

(باب النفقة ‌‌،حكم النفقة للزوجة،٦٦٦/٥،ط: دار الكتب العلمية)

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتۃ میں ہے:

"وتسقط بالنشوز النفقة المفروضة لا المستدانة في الأصح، أي إذا كان لها عليه نفقة أشهر مفروضة ثم نشزت سقطت تلك الأشهر الماضية، بخلاف ما إذا أمرها بالاستدانة فاستدانت عليه فإنها لا تسقط، قال ابن عابدين: وسقوط المفروضة منصوص عليه في الجامع، أما المستدانة فذكر في الذخيرة أنه يجب أن يكون على (الروايتين في سقوطها بالموت."

(‌‌أثر النشوز على النفقة،٢٠٩/٤٠،ط: وزارة الأوقاف)

فیہ ایضا:

"لأن ‌النفقة ‌لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا، فتسقط بالمضي بدون قضاء ولا تراض ."

(‌‌عودة النفقة بترك النشوز،٢٩٢/٤٠،ط: وزارة الأوقاف)

فقط والله اعلم

 


فتوی نمبر : 144410101911

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں