میری شادی کو23سال کاعرصہ ہوچکاہے،اورمیری بیوی میرےچچاکی بیٹی اورامریکہ کی رہائشی تھی،ہم یہیں پاکستان میں رہتےتھےاورہمارےمالی حالات اچھےنہیں تھےتوگزشتہ تین سال پہلےمیں کمائی کےلیےامریکہ چلاگیااورکچھ عرصہ میں میری بیوی بچےبھی امریکہ آگئے۔
اب تین سال سےہم یہیں امریکہ میں رہتےہیں،میری بیوی بھی کمانےجاتی ہےاورمیں بھی اوربچےیہیں پڑھتےہیں،مگریہاں کاماحول بہت براہےاورمیں نہیں چاہتاکہ میری نسل یہاں پروان چڑھے،اس وجہ سےمیں اپنی بیوی بچوں کےساتھ واپس پاکستان آناچاہتاہوں،مگرمیری بیوی بچےآنےکےلیےتیارنہیں اورمیں ان کےساتھ یہاں رہ کراپنی آخرت تباہ نہیں کرناچاہتا۔
تومجھےیہ بتائیں کہ میں ان کووہیں چھوڑکرواپس پاکستان آجاؤں؟یامیں کیاکروں؟
واضح رہےکہ علماءکرام نےحالتِ مجبوری میں درج ذیل چندصورتوں کےعلاوہ غیرمسلم ملک میں جانےیاوہاں پرمستقل رہائش اختیارکرنےکوناجائزقراردیاہے:
1۔ بغیر کسی جرم کے اپنے ملک میں مظالم اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑ رہی ہوں اور ان مظالم سے بچنے کی کوئی اور صورت نہ ہو ۔
2۔یاکوئی شخص شدید معاشی بحران کا شکار ہو اور کوشش کے باوجود اسلامی ملک میں معاشی وسائل دست یاب نہ ہوسکیں۔
3۔یا کوئی شخص غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچانے اور غیر مسلم ملک میں مقیم مسلمانوں کو دینی احکامات کی تعلیمات دینے اور دینِ اسلام پر ان کی ثابت قدمی برقرار رکھنے کی نیت سے غیر مسلم ممالک میں جاکر رہائش اختیار کرتا ہے،یاعلاج ومعالجہ کےلیےجاناناگزیرہو۔
توان صورتوں میں غیرمسلم ملک میں جانایاوہاں رہائش اختیارکرنا جائز ہے، بشرطیکہ اسے اس بات کا مکمل اعتماد ہو کہ وہ غیر مسلم ملک میں شرعی احکامات کی مکمل پیروی کرکے اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور اُس ملک میں موجود منکرات اور فحاشی کے سمندر میں اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچا سکتا ہے، اسی طرح اگر بیوی بچے ساتھ ہوں تو ان کے متعلق یہ اطمینان ہونا بھی شرط ہے،بصورتِ دیگرمحض معیارِزندگی بلندکرنےاورعیش وعشرت کی زندگی بسرکرنےکی غرض سےمغربی ممالک کی رہائش اختیار کرنا ایک مسلمان کےلیےشرعاًجائزنہیں۔
لہٰذاصورتِ مسئولہ میں جب سائل اوران کی بیوی بچوں کےلیےوہاں پررہنےکےلیےکوئی شرعی عذرنہیں ہےاوروہاں پررہنےسےسائل اوراس کی نسل کےایمان کاخطرہ ہےتوایسی صورت میں ان کےلیےوہاں پررہائش اختیارکرناہرگزجائزنہیں،بلکہ ایسےملک سے نکل جاناضروری ہے،بیوی بچوں کابلاوجہ تاخیرکرنایاواپس اپنےملک نہ آناجائزنہیں ۔
باقی سائل کی بیوی بچےکسی صورت واپس اپنےملک آنےکےلیےتیارنہ ہوتوسائل اپنےایمان کی حفاظت کےساتھ ان کوگمراہی سےبچانےکی خاطران کے ساتھ ہی رہے،نرمی اورحکمت کےساتھ ان کوسمجھانےاورراہِ راست پرلانےکی کوشش کرتارہے۔
تفسیرروح المعانی میں ہے:
(يا أيها الذين آمنوا قوا أنفسكم وأهليكم نارا)
"وروي أن عمر قال حين نزلت: يا رسول الله نقي أنفسنا فكيف لنا بأهلينا؟فقال عليه الصلاة والسلام: "تنهوهن عما نهاكم الله عنه وتأمروهن بما أمركم الله به فيكون ذلك وقاية بينهن وبين النار" .وأخرج ابن المنذر والحاكم وصححه وجماعة عن علي كرم الله تعالى وجهه أنه قال في الآية: علموا أنفسكم وأهليكم الخير وأدبوهم، والمراد بالأهل على ما قيل: ما يشمل الزوجة والولد والعبد والأمة.واستدل بها على أنه يجب على الرجل تعلم ما يجب من الفرائض وتعليمه لهؤلاء، وأدخل بعضهم الأولاد في الأنفس لأن الولد بعض من أبيه،وفي الحديث" رحم الله رجلا قال: يا أهلاه صلاتكم صيامكم زكاتكم مسكنكم يتيمكم جيرانكم لعل الله يجمعكم معه في الجنة"، وقيل: إن أشد الناس عذابا يوم القيامة من جهل أهله".
(سورة التحريم، الآية:6، ج:14، ص:351، ط:دار الكتب العلمية)
تفسیرِکشاف(للزمخشریؒ)میں ہے:
(ألم تكن أرض الله واسعة فتهاجروا فيها)
"وهذا دليل على أن الرجل إذا كان في بلد لا يتمكن فيه من إقامة أمر دينه كما يجب، لبعض الأسباب والعوائق عن إقامة الدين لا تنحصر، أو علم أنه في غير بلده أقوم بحق الله وأدوم على العبادة- حقت عليه المهاجرة. وعن النبي صلى الله عليه وسلم «من فر بدينه من أرض إلى أرض وإن كان شبرا من الأرض استوجبت له الجنة....ثم استثنى من أهل الوعيد المستضعفين الذين لا يستطيعون حيلة في الخروج لفقرهم وعجزهم ولا معرفة لهم بالمسالك."
(سورة النساء، الآية:97، ج:1، ص:555، ط:دار الكتاب العربي، بيروت)
وفيه أيضاً:
(ووصى بها إبراهيم بنيه ويعقوب يا بني إن الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن إلا وأنتم مسلمون)
"فلا تموتن معناه فلا يكن موتكم إلا على حال كونكم ثابتين على الإسلام."
(سورة البقرة، الآية:132، ج:1، ص:191، ط:دار الكتاب العربي، بيروت)
بذل المجھودمیں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من جامع المشرك) أي: اجتمع معه في دار أو بلد، والأحسن أن يقال: معناه اجتمع معه، أي: اشترك في الرسوم والعادة والهيئة والزي، وأما قوله: (وسكن معه) علة له، أي: سكناه معه صار علة لتوافقه في الهيئة والزي والخصال (فإنه مثله) نقل في الحاشية عن "فتح الودود": فإنه مثله، أي: يقارب أن يصير مثلا له لتأثير الجوار والصحبة، ويحتمل أنه تغليظ."
(كتاب الجهاد، باب في الإقامةبأرض المشرك، ج:9، ص:525، ط:مركزالشيخ أبي الحسن الندوي، الهند)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144605100811
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن