بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمانی بیوی سے کیا سلوک کیا جائے؟


سوال

میری اپنی بیوی سے تین سال سے علیحدگی ہے، وہ اپنے جوان کماؤ بچوں کے ساتھ اپنے والد کے گھر میں رہتی ہے، میرا  ان سے ساری زندگی جو اختلاف رہا جس کو وہ خود بھی مانتی تھی اور مجھے کہتی تھی کہ میں آئندہ نہیں کروں گی، مگر دوبارہ عہد توڑ کر وہی کرتی تھی، اس کے رشتے دار مجھے ناپسند کرتے تھے اور میری کئی بار انہوں نے بے عزتی  بھی کی، میں اس کو کہتا تھا کہ جو تمہارے شوہر کی عزت نہ کرے تمہیں اس سے نہیں یا کم ملنا چاہیے،  مگر وہ ان لوگو‌ں سے ویسے ہی ملتی تھی، جس سے میرے دل کو خلش پہنچتی تھی، میں اس سے کہتا تھا  کہ اکیلے  رکشے میں نہ جایا کرو، مگر وہ نہیں مانتی تھی، وہ ہر وقت اپنی بہنوں کے زیر اثر رہتی تھی،  میں کہتا تھا کہ تم میرے آفس سے آنے کے بعد دو دو گھنٹے اپنی بہنوں سے فون پر بات نہ کیا کرو ، بھلے میرے آنے سے پہلے پورا دن بات کر لیا کرو، مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہتی تھی، اور سب سے اہم بات میں اس سے کہتا تھا کہ تم بلا اجازت اپنے والد کے گھر رہنے کے لیے  نہ جایا کرو، میں نے کبھی نہیں کہا کہ نہ جایا کرو، مگر وہ بلا اجازت  چلی جاتی تھی، جب کہ میری بوڑھی ماں گھر میں اکیلی ہوتی تھی، ان کو چھوڑ کر اپنے والد کے گھر ہفتے  ہفتے کے لیے  میرے اجازت نہ دینے کے باوجود چلی جاتی تھی، مکمل طور پر اپنی بہنوں کے زیر اثر تھیں، میں آپ سے اپنے دینی حقوق جو مجھے شریعت نے تفویض کیے  ہیں، معلوم کرنا چاہتا ہوں، کیا میں ان کو جن باتوں سے روکتا ہوں، وہ شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں؟  آپ کے جواب کی روشنی میں اپنے آگے  کے لائحہ عمل کے بارے میں فیصلہ کروں گا۔

جواب

 ازدواجی زندگی پرسکون اور خوش گوار  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں،  نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والی کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں، دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا، ارشاد نبوی ہے:  (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، اسی اطاعت شعاری کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب شوہر بیوی کو اپنا طبعی تقاضا پورا کرنے کے لیے بلائے تو بیوی انکار نہ کرے، اس سلسلے میں احادیثِ مبارکہ میں واضح تعلیمات موجود ہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل اور اس کی  بیوی کو چاہیے کہ ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا دیں اور ایک دوسرے کو دل سے معاف کرکے خوش وخرم زندگی گزاریں۔بیوی کا شوہر سےدور رہنا، اس کا کہنا نہ ماننا  اور اچھا سلوک نہ کرنا، بلا اجازت گھر سے چلے جانا اور جو رشتہ دار اس کے شوہر کی تذلیل کریں ان سے کثرت سے ملنا شرعاً درست نہیں، بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے اور اس کی بات ماننے میں کوتاہی نہ کرے۔ نیز سائل کو چاہیے کہ اگر اس کا سسرال اسی کے شہر میں ہے تو ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ بیوی کو والدین سے ملاقات کی اجازت دے، اور باقی محرم رشتہ داروں (بہن، بھائیوں، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالاؤں) سے مناسب وقفے کے بعد ملاقات کرنے دے، اور بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ اللہ تعالی سے اپنی اہلیہ اور بچوں کے لیے دعائیں کیا  کرے، اور جن رشتہ داروں سے سائل بیوی کو منع کرتاہے، اگر وہ بیوی کے غیر محرم ہیں تو سائل کو منع کرنے کا حق ہے، البتہ اگر وہ بیوی کے محارم ہیں تو سائل ان سے بالکلیہ قطع تعلق پر بیوی  کو مجبور نہیں کرسکتا۔

"وعنعائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي، وإذا مات صاحبكم فدعوه». رواه الترمذي والدارمي".

 (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي".

 (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

 فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201762

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں