اگر عورت شوہر کا گھر کسی وجہ کے بغیر چھوڑ جائےاور کورٹ سے جا کر خلع لے اور اپنے والدین کے گھر میں عدت گزارے تو کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس حوالے سے کہ کیا بیوی کے نان نفقہ اور عدت کا نان نفقہ شوہر کے ذمے شرعاً واجب ہے؟
واضح رہے کہ بیوی اگر شوہر کی اجازت کے بغیر بلا وجہ میکے میں بیٹھی ہو وہ ناشزہ ہونے کی وجہ سے نفقہ کی حق دار نہیں جب تک وہ شوہر کے گھر نہ آئے یا شوہر اس کو وہاں رہنے کی اجازت نہ دے ، لہذا صورت ِ مسئولہ میں شوہر پر بیوی کا نان نفقہ دینا شرعاً لازم نہیں ہے۔
در مختار وحاشیۃ ابن عابدین میں ہے :
"(لا) نفقة لأحد عشر: مرتدة، ومقبلة ابنه، ومعتدة موت ومنكوحة فاسدا وعدته، وأمة لم تبوأ، وصغيرة لا توطأ، و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره خلافا للشافعي، والقول لها في عدم النشوز بيمينها، وتسقط به المفروضة لا المستدانة في الأصح كالموت، قيد بالخروج؛ لأنها لو مانعته من الوطء لم تكن ناشزة."
(کتاب الطلاق،باب النفقۃ،ج:۳،ص:۵۷۶،سعید)
وفيه أيضاّ:
"وفي المجتبى: نفقة العدة كنفقة النكاح. وفي الذخيرة: وتسقط بالنشوز وتعود بالعود."
(کتاب الطلاق،باب النفقہ ،ج:۳،ص:۶۰۹،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309100311
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن