بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیوی کا حکم


سوال

میری شادی دھوکے سے اور دلہن کی عمر چھپا کر مجھ سے دس سال بڑی عورت سے کر دی گئی، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ رشتہ میرے والدین نے روپے پیسے دیکھ کر کیا تھا، شاید انہیں لڑکی کی عمر کا زیادہ ہونے کا اندازہ تھا لیکن شاید اتنا زیادہ اضافے کی ان کو بھی توقع نہیں تھی۔

میں بریلوی سنی سید ہوں جب کہ وہ لوگ دیو بندی  ہاشمی ہیں، مجھے تو عمر کا پتہ ملاپ اور شناختی کارڈ دیکھ کر ہوا، اب پندرہ سال شادی کو لڑتے جھگڑتے ہو گئے ہیں 2 بچے ہیں بیٹی 15 سال اور بیٹا 11 سال کا ہے ماشاءاللہ، لیکن میری زندگی ایک عذاب ہے، برائے نام ہے، میں شوگر کا مریض بن چکا ہوں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے  سائیکیٹرسٹ سے میڈیسن لے رہا ہوں اور سائیکالوجسٹ سے سیشنز لے رہا ہوں۔

مجھے میرے ماں باپ بہن بھائیوں سے علیحدہ کر دیا گیا ہے، اس کے علاوہ ایک پلان کے تحت دلہن نے ایک پلاٹ اپنی وراثت سے لے کر مجھے طعنے دینے شروع کر دیے کہ آ پ تو فقیر ہیں، آ پ نے کوئی بنا لینا ہے۔

میں نے اپنی جمع پونجی اس پلاٹ پر لگا دی لیکن دس مرلے اور سوسائٹی میں ہونے کی وجہ سے افورڈ نہ کر سکا اور اپنا مکان بند کرکے کرائے پر آ بیٹھا ہوں، میری تین ہفتوں سے بیوی سے بول چال بند ہے، لیکن وہ بھرپور مقابلہ کر رہی ہے صرف کام کی بات ہوتی ہے، بچے بھی چڑچڑے ہو رہے ہیں، اس کی بڑی بہن بھی جوان بچے لے کر نیم بیوہ ہو کر بیٹھی ہے اور اس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے اور وہ دوبارہ جوان ہو گیا ہے۔

اگر میں فی الفور طلاق دیتا ہوں تو بچوں سے بھی فارغ ہو جاؤں گا اور پلاٹ پر لگی جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔ میری والدہ 2015 میں ہی فوت ہو گئی تھیں مزاحمت نہ سہہ سکیں، شدید کرب میں مبتلا ہوں راہنمائی فرمائیں۔

جواب

شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی میں سے دونو ں پر ایک دوسرے کے حقوق مقرر کیے ہیں، ازدواجی زندگی کو خوشحال بنانے کے لیے ان دونوں کا ایک دوسرے کے حقوق کا ادا کرناضروری ہے، تو جس طرح شوہر پر بیوی کے حقوق مقرر ہیں، اسی طرح پر بیوی پر بھی شوہر کے حقوق مقرر ہیں، جس طرح ایک مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی فرماں بردارہو، اس کا اور اس کی ضروریات کا خیال رکھنے والی ہو، اس سے محبت کرنے واولی ہو، اسی طرح عورت بھی یہ چاہتی ہے کہ شوہر اس کاخیال رکھے، اس سے محبت کرے اور اسے اہمیت دے، اگر دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے رہیں اور ایک دوسرے کی غلطیوں سے صرف نظر کریں، اور ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت رکھتے ہوئے تقوی اور پرہیز گاری کے ساتھ زندگی گزاریں، تو زندگی خود ہی خوش گوار بن جاتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی شادی عورت کی عمر چھپا کر اپنے سے 10 سال بڑی عمر کی عورت سے ہوگئی ہے، تو اس صورت میں نکاح تو منعقد ہوگیا،  اگر چہ عورت اور اس کے گھر والوں کے لیے عمر چھپانا جائز نہیں تھا، لیکن جب یہ نکاح منعقد ہوچکا ہے اور وہ سائل کی بیوی بن چکی ہے اور اس سےاس کی اولاد بھی ہوچکی ہے، تو اب سائل کو چاہیے کہ دل سے اس بات کو نکال دے  اور دل سے اس کو اپنی بیوی تسلیم کرلے اور اس سےیا اس کے بڑوں سے  جو کوتاہیاں ہوئی تھیں، اس سے صرف نظر کر کے اسے معاف کردے، بصورتِ دیگر بیوی کے ساتھ اعتدال مزاجی سے رہنا مشکل ہوگا۔

اور بیوی کو بھی  چاہیے  کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے سے بالاتر سمجھے،  اس کی وفادار اور فرماں بردار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا  اور آخرت کی بھلائی  اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے اور شوہر کو اذیت اور تکالیف دینے اور طعن و تشنیع کرنے سے اجتناب کرے، اگر عورت اپنے شوہر کی فرماں دار رہ کر زندگی گزارے، تو اس کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ: "جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔"

لہٰذا دونوں میاں  بیوی ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں اور  تقوی اور پرہیز گاری کے ساتھ زندگی گزاریں اور ایک دوسرے کے حق  میں دعائیں بھی کرتے رہیں، ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ جلد دلوں میں جوڑ پیدا کردیں گے۔

باقی جو گھر سائل نے اپنی بیوی کے پلاٹ پر تعمیر کیا ہے، اگر وہ سائل نے خود اپنی رہائش کے لیے کیا ہے، تو وہ گھر سائل ہی کا ہوگا اور پلاٹ بیوی  ہوگا اور اگر بیوی کے کہنے پربطورِ قرض خرچ کیا ہے، تو وہ گھر اور پلاٹ دونوں بیوی کے ہوں گے اور بیوی تعمیری لاگت شوہر کو ادا کردے اور اگر بیوی کے کہے بغیر اسی کے لیے کیا ہے، تو یہ تعمیر بطورِ تبرع و احسان شمار ہوگی، پلاٹ اور مکان دونوں بیوی کے ہوں گے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي  أبواب الجنة شاءت». رواه أبو نعيم في الحلية."

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ج:2، ص:971، ط:المکتب الاسلامی)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله ‌عمر ‌دار ‌زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ."

(رد المحتار، مسائل شتي، ج:6، ص:747، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں