بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیٹے کو جائے داد سے عاق کرنا / بیٹے کی شادی کا خرچہ اور بہو کو سونا اور زمین دے کر واپسی کا مطالبہ


سوال

میرا ایک بیٹا ہے،  میں نے اس کی شادی میں 6لاکھ  روپے خرچ کیے ، ایک کنال زمین اور دو تولہ سونا بہو کو دیا،  بیٹے کو بہو نے نافرمان کردیا ہے،  میں نے اس کی وجہ سے دونوں کو عاق کر دیا ہے،اب میں اپنا کنال اور چھ لاکھ اور دو تولہ سونا واپس لینا چاہتا ہوں ، کیا میں یہ سب لے سکتا ہوں ؟میں نے یہ بیٹے کے حوالے نہیں کیا تھا بلکہ سب  اپنی بہو کو دیا تھا، اور پیسہ  بیٹے  کی شادی میں خرچ کیا تھا۔ 

جواب

واضح رہے کہ اولاد  پر جائز امور میں  اپنے  والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری  فرض ہے، نیز والدین کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا بھی شرعا ضروری ہے، ان کی نافرمانی اور ان کی ایذاء رسانی  سخت حرام اور گناہِ کبیرہ  ہے، قرآنِ کریم اور احادیث نبویہ  میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے،  اور والدین کی نافرمانی،  ان کے ساتھ   بد کلامی  کے ساتھ پیش آنے، اور والدین کو ستانے کی بہت وعیدیں آئی  ہیں۔

صورت مسئولہ میں  سائل کا بیٹا اگر واقعۃ ً اس کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کا یہ عمل ناجائز اور گناہ ہے، اس پر لازم ہے کہ  وہ توبہ واستغفار کرکے والد کی فرماں برداری اختیار کرے، تاہم اس کے نافرمان ہونے کے  باوجود  سائل کے لیے اس کو  اپنی جائیداد  سے  عاق کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی شرعاً اس کی کوئی حیثیت ہے،  اگر سائل اس کو اپنی جائیداد سے عاق بھی کردے تو بھی  وہ  اپنے شرعی حصہ سے محروم نہیں ہوگا، بلکہ شرعی حصہ بدستور اس کو ملے گا۔

باقی  سائل نے بیٹے کی شادی میں جو رقم خرچ کی ہے، اگر اس وقت قرض کی صراحت نہیں  کی تھی، بلکہ بیٹے کی شادی پر اپنی طرف سے خرچ کی تھی تو اس صورت میں  اب سائل کو  اس رقم کی واپسی کے مطالبہ  کا حق نہیں ہے، نیز  بہو کو زمین اور سونا اگر  گفٹ کیا تھا، اور اس کا قبضہ بھی  بہو کو  دے دیا تھا تو اب    اس کی رضامندی کے بغیر اسے  واپس لینے کا حق نہیں ہے، اسی طرح اگر یہ سونا اور زمین بہو کو  ا پنے بیٹے کی طرف سے  مہر میں   سائل نے از خود دی تھی، بیٹے نے اس کا نہیں کہا تھا، اور نہ ہی سائل نے قرض کی صراحت کی تھی ،تو اس صورت میں بھی  اب اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:

"من قضى دين غيره بغير أمره لا يكون له حق الرجوع عليه ... المتبرع لا يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(1 / 287، كتاب الكفالة، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں  ہے:

"ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم وفيما سوى ذلك له حق الرجوع إلا أن بعد التسليم لا ينفرد الواهب بالرجوع بل يحتاج فيه إلى القضاء أو الرضا أو قبل التسليم."

(4/385، الباب الخامس فی الرجوع فی الھبۃ ،  ط؛ رشیدیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100947

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں