بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الاول 1446ھ 11 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیٹے کو جائے داد سے عاق کرنے کا حکم


سوال

میرا بیٹا نافرمان ہے، لوگوں کے ساتھ بھی فراڈ کرتا ہے، اور ہمارے ساتھ بھی ا س کا رویہ اچھا نہیں ہے، کیا میں اپنے بیٹے کو جائیداد سے عاق کرسکتا ہوں؟  نیز بیٹے کو میں معاف کرسکتا ہوں ؟ اگر بیٹے کو میں نے عاق کردیا، پھر معاف بھی کردیا تو کیا اب عاق کرنے سے رجوع کرسکتا ہوں؟ 

اس کے بیوی بچے بھی ہیں ، جو ابھی تو بیٹے کے پاس ہی ہیں لیکن کیا میں اپنے پاس ان کو بلاسکتا ہوں ؟ میں ان کا روز مرہ کا  خرچہ دینے کے لیے تیار ہوں۔

جواب

1۔ واضح رہے کہ اولاد کا نافرمان ہونا اور والدین کا ان سے ناراض رہنا، اولاد کے حق میں گناہ کبیرہ ہے، اس کا وبال دنیا و آخرت، دونوں  جہانوں میں ظاہر ہوتا ہے، البتہ اس وجہ سے اولاد کو جائے داد سے عاق کرنا بے بنیاد   ہے، اولاد جائے داد سے محروم نہیں ہوتی۔ نیز اولاد پر شفقت کرتے ہوئے ان کو معاف کردینا بہتر ہے، تاکہ انہیں دنیا و آخرت میں پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے، اور امید ہے کہ  معاف کرنے سے بیٹے کے اخلاق میں تبدیلی آجائے گی۔ 

والد کے معاف کرنے کے بعد جانبین کے اطمینان کے لیے عاق کرنے سے رجوع کیا جاسکتا ہے، ورنہ حقیقت میں بیٹا جائے داد سے محروم ہوا ہی نہیں تھا۔ 

2۔ بیوی بچوں کے اخراجات شوہر کے ذمہ ہیں، لیکن اگر آپ ان کے اخراجات پورے کرنے پر تیار ہیں تو ایسا کرسکتے ہیں، البتہ اس کے بیوی بچوں کو اپنے پاس بلا لینا اور بیٹے کو اپنے حال پر چھوڑدینا ، بیٹے کے رویہ میں مزید بگاڑ پیدا کرسکتا ہے،لہذا آپ بحیثیت والد ایسا قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں، کہیں مزید نقصان  کا باعث نہ بن جائے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"حدثني إسحاق: حدثنا خالد الواسطي، عن الجريري، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا أنبئكم بأكبر الكبائر، قلنا: بلى، يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وكان متكئا فجلس، فقال: ألا وقول الزور وشهادة الزور، ألا وقول الزور وشهادة الزور، فما زال يقولها حتى قلت: لا يسكت."

(کتاب الأدب، ‌‌باب: عقوق الوالدين من الكبائر، ج:5، ص:2229، ط:دار ابن کثیر)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌قطع ‌ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة ." رواه ابن ماجه

(باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:2، ص:926، ط: المکتب الاسلامی) 

تکملہ رد المحتار میں ہے:

الإرث جبري لايسقط بالإسقاط ... الخ

(کتاب الدعوی، باب التحالف، فصل في دفع الدعاوی، ج:7،ص505، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100068

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں