بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیوی اور اس کے بچے کا خرچہ


سوال

میری بیوی مجھ سے پوچھے بغیراپنے میکے گئی  ، پھراس  نے عدالت سے خلع لی ، میں نہ عدالت میں حاضر ہوا تھا اور نہ ہی اب تک میں نے رضامندی کا اظہارکیا ہے، اُس عدالتی خلع سے متعلق میں نے آپ کے دارالافتاء سے پہلے فتوی لیا تھا جواستفتاءکے ساتھ منسلک ہے ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ میرا   ایک دوسالہ بیٹا ہے وہ اس کو بھی   لےگئے ہیں اور اس کا خرچہ مانگ رہے ہیں ، کیا مجھ پر اس بچہ کا خرچہ  دینا لازم ہے؟اور کیا بیوی کا بھی نفقہ مجھ پر لازم ہے جبکہ وہ میری نافرمانی کرکے اپنے میکے گئی ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی چونکہ شوہر کی اجازت کے بغیر نافر مانی کرکےاپنے میکے گئی ہے، اس لیے جب تک وہ شوہر کےگھر واپس نہ آجائے اس کا خرچہ سائل کے ذمہ لازم نہیں ہے۔ باقی سائل  کےبچے کی عمر دوسال ہےتو سات سال ہونے تک اس کی پرورش کا حق اس کی ماں کو حاصل ہے، بچہ  والدہ کے پاس رہے گا، البتہ اس دورانیہ کاخرچہ سائل کے ذمہ ہے ۔ نفقہ میں بچے کی خوراک،لباس وپوشاک، تعلیم کی فیس اور بیماری میں علاج ومعالجہ وغیرہ کاخرچ شامل ہوگاجو سائل کو اپنی کمائی کے اعتبارسے اداکرنا ہوگا، سات سال کی عمر کے بعدسائل کو حق ہوگاکہ بچہ کو اپنی تربیت میں لےلے۔

درمختار میں ہے:

(لا) نفقة ‌لأحد ‌عشر: مرتدة، ومقبلة ابنه، ومعتدة موت»ومنكوحة فاسدا وعدته، وأمة لم تبوأ، وصغيرة لا توطأ، و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره خلافا للشافعي، والقول لها في عدم النشوز بيمينها، وتسقط به المفروضة لا المستدانة في الأصح كالموت، قيد بالخروج؛ لأنها لو مانعته من الوطء لم تكن ناشزة .

(درمختار، كتاب الطلاق، باب النفقة،ج:3،ص:575،576،ط:سعيد)

الدرمع الردمیں ہے:

(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر  ... (قوله بأنواعها) من الطعام والكسوة والسكنى، ولم أر من ذكر هنا أجرة الطبيب وثمن الأدوية، وإنما ذكروا عدم الوجوب للزوجة، نعم صرحوا بأن الأب إذا كان مريضا أو به زمانة يحتاج إلى الخدمة فعلى ابنه خادمه وكذلك الابن  ..... (قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب ..... (وكذا) تجب (‌لولده ‌الكبير العاجز عن الكسب لا يشاركه) أي الأب ولو فقيراً (أحد في ذلك كنفقة أبويه وعرسه) به يفتى .

(الدرمع الرد، کتاب الطلاق، باب النفقۃ، ج:۳،ص:۶۱۲،۶۱۴،۶۱۵،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100940

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں