بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بھائیوں کو والدین سے علیحدہ کردینا


سوال

میرے دو بھائی ہیں، وہ میری والدہ سے بدتمیزی کرتے ہیں اور والد صاحب ان کو روک ٹوک نہیں کرتے اور میں مدرسے کا طالب علم ہوں، تو کیا مجھے اپنی والدہ کو لےکر الگ ہو جانا چاہئے؟شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ دونوں بھائیوں کو والدین کے احسانات، ان کا مقام اور عظمت کا احساسِ دلا کر ان کے حقوق کی ادائیگی کی ترغیب دی جائے اور ان کی حق تلفی اور بے ادبی کے خطرناک نتائج اور اس حوالے سے قرآن و حدیث میں وارد وعیدات سے ڈرایا جائے ۔ اگر پھر بھی کوئی فائدہ نہ ہو اور وہ اپنے طرز عمل کی اصطلاح نہ کریں  اور  ان سے خیر کی امید نہ ہو اور والدین بھی ان کے ساتھ ٹھہرنے پہ راضی نہ ہوں اور سائل والدین کی ضروریات پوری کرنے اور ان کی خدمت کرنے کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہوں تو  والدین کو ان سے الگ  کر سکتے ہیں، البتہ  والد کے بغیر صرف والدہ کو علیحدہ کر لینا درست نہیں ۔

فتح الباری میں ہے:

"‌‌(قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى)أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها... قال المهلب غرض البخاري في هذا الباب أن يبين صفة الهجران الجائز وأنه يتنوع بقدر الجرم فمن كان من أهل العصيان يستحق الهجران بترك المكالمة كما في قصة كعب وصاحبيه وما كان من المغاضبة بين الأهل والإخوان فيجوز الهجر فيه بترك التسمية مثلا أو بترك بسط الوجه مع عدم هجر السلام والكلام."

(باب ما يجوز من الهجران لمن عصي، ج: 10، ص: 497، ط: دار المعرفة ،بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311101584

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں