بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیٹے سے قطع تعلق کرنا اور اس کو جائیداد سے عاق کرنے کا حکم


سوال

میرا ایک بڑا بیٹا ہے، اس کا میرے سالے کی بیٹی کے ساتھ چکر چل رہا تھا، سالے والوں نے رشتہ مانگا، میں نے اس وجہ سے رشتہ دینے سے انکار کردیا کہ وہ ابھی تک کوئی جاب نہیں کرتا تھا، پھر میرے سالے کی بیٹی کی کہیں اور شادی ہوگئی، کچھ عرصہ بعد میرا بیٹا اس کو بھگا کر لے آیا، بہت معلومات کے بعد  معلوم ہوا کہ یہ سارا پلان میرے بیٹے اور لڑکی والوں کابنایا ہوا ہے، انہوں نے اس طرح کرنے کے بعد مل بیٹھ کر آپس میں یہ فیصلہ کیا کہ لڑکی کو اس کے شوہر سے طلاق دلوانی ہے، پھر عدت کے بعد میرا بیٹا اس سے شادی کرے گا، لڑکی اپنے والد سے اپنے حصہ کی زمین لے گی اور میرا لڑکا اپنی والدہ سے زمین کا حصہ لے گا، یعنی یہ سارا چکر زمین کا تھا کہ کسی طرح سے وہ میری بیوی کو اس کے والد کی میراث میں سے ملے ہوئے حصہ کو واپس لیں، اس لیے انہوں نے یہ سارا گیم کیا، اب سوال یہ ہے کہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ کس طرح کا معاملہ رکھوں؟ اس نے پورے خاندان میں میری ناک کٹوادی ہے، کیا میں اس کے ساتھ اجنبی والا معاملہ کروں، اس کو اپنے سے دور رکھوں، شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟

نیز کیا میں اپنے بیٹے کو جائیداد سے عاق کر سکتا ہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی غیر لڑکےکا اورلڑکی کے گھر والوں کا اس کا ساتھ دیتے ہوئے،  شادی شدہ لڑکی کو اس کے گھر سے بھگا کر لے جانا نہایت ہی قبیح عمل ہے اور  جو لوگ  اس عمل میں ملوث ہوئے ہیں، مذکورہ حرکت کرنے پر سخت گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ، لہذا دونوں خاندان  کےمعزز سمجھدار بزرگوں کو چاہیے کہ آپس میں بیٹھ کر باہمی مصالحت سے،  آپس کی رنجشیں دور کرکے لڑکی کو اس کے شوہر کی طرف لوٹا دیں  اور جو لوگ اس گناہ میں ملوث ہوئے ہیں،   وہ توبہ و استغفار کریں،  اگر وہ  اپنے گناہ پر بضد ہوں اور لڑکا،  یا لڑکی کے گھر والے  لڑکی کو اس کے شوہر کے پاس نہیں بھیجنا چاہتے  تو پھر بیٹے  کی نافرمانی او ر اس کاکسی غیر کی منکوحہ کے ساتھ تعلقات رکھنے کی وجہ سے،  والد کے لیے بطورِ اصلاح اس سے قطع تعلقی کرنااور اس کے ساتھ اجنبیوں والا معاملہ رکھنا جائز ہے ، تاکہ بیٹے کو اپنی کی ہوئی غلطیوں کا احساس ہو،  لیکن جب بیٹا  اپنی حرکتوں سے باز آجائے اور معذرت کرلے ، تو پھر والد کو یہ قطع تعلقی ختم کر دینی چاہیے۔

نیزوالد کا اپنی اولاد  میں سے کسی کو  اپنی جائےداد  سے  عاق کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی شرعاً اس کی کوئی حیثیت ہے، البتہ اگر اولاد میں سے کوئی نافرمان ہو تو جائےداد میں سے اس کا  حصہ کم کر سکتے ہیں، حصہ کم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ والد اپنی جائےداد  حالتِ صحت و حیات میں ہی اولاد میں تقسیم کرکے ان کو  مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ حوالے کردے، البتہ اگر والد نے زندگی میں اپنی جائےداد تقسیم نہیں کی یا تقسیم تو کی مگر ہر ایک کو مکمل قبضہ وتصرف کے ساتھ حوالے نہیں کی،  تو والد کے انتقال کے بعد بیٹے کا شرعی حصہ میراث میں سے کم نہیں ہوگا، نافرمان بیٹے کو  بالکل ہی جائےداد سے محروم کردینا جائز نہیں ہے،اگروالد اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی  اپنی جائےداد سےعاق کردیتا ہے تو وہ محروم نہیں ہوگا اوروالد کے انتقال کے بعد والد کی  جائےداد  میں سےاسے حصہ دیا جائے گا۔

فتح الباری میں ہے:

"(قوله : باب ما يجوز من الهجران لمن عصى)

أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."

(كتاب اللباس، باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، ج: 10 ،ص :497، ط: دار المعرفة)

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثَ وَارِثِهِ قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ."

(کتاب الفرائض، باب الوصایا، الفصل الأول، رقم الحدیث؛3078، ج:2، ص:926، ط:المکتب الإسلامي)

 تکملة رد المحتار   میں ہے: 

"الإرث جبري لايسقط بالإسقاط ... الخ."

(کتاب الدعوی، باب التحالف، فصل في دفع الدعاوی، ج:7، ص:505، ط:سعید)

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"ولو أعطٰي بعض ولدہ شیئًا دون البعض لزیادۃ رشدہ لا بأس به وان کانوا سواء لا یىبغي أن یفضل ولو کان ولدہ فاسقًا فأراد أن یصرف ماله إلی وجود الخیر ویحرمه عن المیراث هذا خیر من ترکه لأن فیه إعانة علي المعصیة ولو کان ولدہ فاسقًا لا یعطٰي له أکثر من قوته."

(کتاب الھبة، الفصل الثاني، ج:4، ص:400، ط:رشیدیه)

امدادالفتاوی میں ہے:

"  عاق دو معنی میں مستعمل ہے، ایک معنی شرعی دوسرے عرفی، شرعی معنی تو یہ ہیں کہ اولاد والدین کی نافرمانی کرے، سو اس معنی کی تحقیق میں تو کسی کے کرنے نہ کرنے کو دخل نہیں جو والدین کی بے حکمی کرے، وہ عند اللہ عاق ہوگا، اور اس کا اثر فقط یہ ہے کہ خدا کے نزدیک عاصی ومرتکب گناہ کبیرہ کا ہوگا، باقی حرمانِ میراث اس پر مرتب نہیں ہوتا، دوسرے معنی عرفی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو بوجہ ناراضی بے حق ومحروم الارث کردے، سو یہ امر شرعاً بے اصل ہے، اس سے اس کا حق ِارث باطل نہیں ہوسکتا، کیوں کہ وراثت ملکِ اضطراری وحق شرعی ہے، بلا قصدِ مورث و وارث اس کا ثبوت ہوتا ہے۔ قال اللّٰه تعالى: {یُوْصِیْکُمُ اللّٰهُ فِيْ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْن۔ الاٰیةاور لام استحقاق کے لیے ہے، پس جب اللہ تعالیٰ نے حقِ وراثت مقرر فرمادیا اس کو کون باطل کرسکتا ہے۔ اور نیز قصّہ حضرت بریرہؓ کا شاہد اس کا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے اُن کو خرید کر آزاد کرنے کا ارادہ کیا تھا، اس کے موالی نے شرط کی کہ ولاء ہماری رہے گی، اس پر رسولﷺ نے فرمایا کہ ان کی شرط باطل ہے، اورولاء معتق کی ہے: ’’كما روى النسائي: عن عائشة: أنھا أرادت أن تشتري بریرة للعتق وأنھم اشترطوا ولاء ھا، فذكرت ذلك لرسول اللّٰه ﷺ فقال رسول اللّٰهﷺ: اشتریھا وأعتقیھا؛ فإنّ الولاء لمن أعتق‘‘.  (الحدیث)جب ولاء کہ حق ضعیف ہے،چنانچہ حسبِ فرمودۂ پاک۔’’الولاء لحمة كلحمة النسب‘‘. (الحدیث)  ضعف اس کا کافِ تشبیہ سے ظاہر ہے، وہ نفی کرنے سے نفی نہیں ہوتا، پس حقِ نسب کہ اقویٰ ہے، کیوں کر نفی کو قبول کر سکتاہے، پھر جب واضح ہوا کہ اس معنی کا شرعاً کچھ ثبوت نہیں تو اس سے رجوع کی کچھ حاجت و ضرورت نہیں، بعد مرگِ پدرا س کا وارث ہوگا، البتہ محروم الارث کرنے کا طریق یہ ممکن ہے کہ اپنی حالتِ حیات و صحت میں اپنا کل اثاثہ کسی کو ہبہ یا مصارف خیر میں وقف کرکے اپنی ملک سے خارج کردے، اس وقت اس کا بیٹا کسی چیز کا مالک نہیں ہوسکتا، ’’كما في العالمگیریة: لو كان ولدہ فاسقًا وأراد أن یصرف ماله إلى وجوہ الخیر ویحرمه عن المیراث هذا خیر من تركه، كذا في الخلاصة.ج:3، ص:65."

(امدادالفتاوی، کتاب الفرائض،  جلد چہارم ، ص:365،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں