بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر کے بعد نفل بیٹھ کر پڑھے یا کھڑے ہوکر؟ / فجر اور ظہر کی سنن قبلیہ کی قضا کا حکم


سوال

میرا ایک ساتھی وتر کے بعد دو رکعت نفل نماز بیٹھ کر پڑھتا ہے، وہ کہتا ہے کہ یہ مسنون ہے، ایک ساتھی نے کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عذر کی وجہ سے پڑھی تھی، آپ کھڑے ہوکر پڑھیں؛کیوں کہ آپ کا کوئی عذر نہیں ہے، راقم کی بھی بیٹھ کر پڑھنے کی عادت تھی،اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا سنت ادا کرنے کے لیے بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ 

2-میری عادت ہے کہ فجر کی سنتیں اور ظہر کی سنتیں جب نکل جاتی ہیں تو ظہر کی سنتیں فرض نماز کے بعد ادا کرتا ہوں، اور فجر کی سنتیں اشراق کے بعد ادا کرتا ہوں، ایک ساتھی نے کہا کہ سنتوں کی کوئی قضا نہیں ہے، ہاں حدیث میں جو فضیلت آئی ہے ان کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو وقت پر پڑھا جائے، قضا مراد نہیں ہے، سوال یہ کہ کیا ان سنتوں کی قضا کا کوئی ثبوت ہے یا نہیں ہے؟

جواب

1-وتر کے بعد دو رکعت نفل نماز  بیٹھ کر اور کھڑے ہوکر دونوں طرح پڑھنا  جائز ہے، البتہ بیٹھ کر پڑھنے کی نسبت کھڑے ہوکر پڑھنا افضل ہے، باقی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دو رکعت نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا ثابت ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپے یا معذوری کی وجہ سے بیٹھ کر نہیں پڑھتے تھے بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خصوصیت تھی کہ بیٹھ کر پڑھنے پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا اجر ملتا تھا؛ اس لیے امت کے لیے وتر کی نماز کے بعد دو رکعت نفل بیٹھ کر پڑھنا سنت نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، اور نبی کی خصوصیت امت کے لیے سنت نہیں ہوتی، لہذا سائل کی بات درست ہے، ساتھی کی بات درست نہیں ہے۔

البتہ بعض مشائخ سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی نیت سے یہ دو رکعت نماز بیٹھ کر پڑھ لے تو امید ہے کہ اس نیت کی وجہ سے اس کو کامل ثواب مل جائے۔

شرح النووی علی الصحیح لمسلم میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو أنه وجد النبي صلى الله عليه وسلم يصلي جالسا قال فوضعت يدي على رأسه فقال مالك يا عبد الله بن عمرو قلت حدثت يا رسول الله أنك قلت صلاة الرجل قاعدا على نصف الصلاة وأنت تصلي قاعدا قال أجل ولكني لست كأحد منكم معناه أن صلاة القاعد فيها نصف ثواب القائم فيتضمن صحتها ونقصان أجرها وهذا الحديث محمول على صلاة النفل قاعدا مع القدرة على القيام فهذا له نصف ثواب القائم وأما إذا صلى النفل قاعدا لعجزه عن القيام فلا ينقص ثوابه بل يكون كثوابه قائما وأما الفرض فإن الصلاة قاعدا مع قدرته على القيام لم يصح فلا يكون فيه ثواب بل يأثم به.

وبه قال الجمهور في تفسير هذا الحديث وحكاه القاضي عياض عن جماعة منهم الثوري وبن الماجشون وحكي عن الباجي من أئمة المالكية أنه حمله على المصلي فريضة لعذر أو نافلة لعذر أو لغير عذر قال وحمله بعضهم على من له عذر يرخص في القعود في الفرض والنفل ويمكنه القيام بمشقة وأما قوله ص لست كأحد منكم فهو عند أصحابنا من خصائص النبي صلى الله عليه وسلم فجعلت نافلته قاعدا مع القدرة على القيام كنافلته قائما تشريفا له كما خص بأشياء معروفة في كتب أصحابنا وغيرهم وقد استقصيتها في أول كتاب تهذيب الأسماء واللغات وقال القاضي عياض معناه أن النبي صلى الله عليه وسلم لحقه مشقة من القيام لحطم الناس وللسن فكان أجره تاما بخلاف غيره ممن لا عذر له هذا كلامه وهو ضعيف أو باطل لأن غيره ص إن كان معذورا فثوابه أيضا كامل وإن كان قادرا على القيام فليس هو كالمعذور فلا يبقى فيه تخصيص فلا يحسن على هذا التقدير لست كأحد منكم."

(كتاب الصلاة، باب جواز الصلاة قائما وقاعدا، ج:6، ص:15، ط:دار احياء التراث العربي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(ولكنى لست كأحد منكم) : يعني هذا من خصوصياتي أن لا ينقص ثواب صلواتي على أي وجه تكون من جلواتي، وذلك فضل الله يؤتيه من يشاء، قال تعالى: {وكان فضل الله عليك عظيما}."

(كتاب الصلاة، باب القصد في العمل، ج:3، ص:936، رقم:1249، ط:دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويتنفل مع قدرته على القيام قاعدا) لا مضطجعا إلا بعذر (ابتداء و) كذا (بناء) بعد الشروع بلا كراهة  في الأصح كعكسه بحر. وفيه أجر غير النبي - صلى الله عليه وسلم - على النصف إلا بعذر.

(قوله أجر غير النبي - صلى الله عليه وسلم -) أما النبي - صلى الله عليه وسلم - فمن خصائصه أن نافلته قاعدا مع القدرة على القيام كنافلته قائما؛ ففي صحيح مسلم «عن عبد الله بن عمرو قلت: حدثت يا رسول الله أنك قلت: صلاة الرجل قاعدا على نصف الصلاة وأنت تصلي قاعدا، قال: أجل، ولكني لست كأحد منكم» بحر ملخصا: أي لأنه تشريع لبيان الجواز."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:37، ط:سعید)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

’’وتر کے بعد دو رکعت نفل کھڑے ہوکر پڑھنا افضل ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’بیٹھ کر پڑھنے والے کے لیے نصف ثواب ہے، اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طریقے ثابت ہیں، لیکن آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر پڑھنے میں پورا اجر وثواب ملتا تھا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، کیوں کہ اس میں بھی امت کی تعلیم تھی کہ کھڑا ہونا فرض نہیں ہے، امت کو تعلیم دینا نبوت کے واجبات میں سے ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھ کر نفل پڑھنے میں بھی واجب کی ادائیگی ہے، جس کا ثواب نفل سے زیادہ ہے....البتہ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ اگر کوئی متبع سنت وتر کے بعد کی دو رکعت گاہے گاہے اس نیت سے بیٹھ کر پڑھے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کرادا فرماتے تھے میں بھی اتباعا بیٹھ کر پڑھوں گا، تو عجب نہیں کہ اس کو اس کی نیت کے مطابق پورا اجر وثواب ملے‘‘۔

(کتاب الصلاہ، باب النوافل والسنن، وتر کے بعد کی نفل کھڑے ہوکر پڑھے یا بیٹھ کر؟ ج:5، ص:224، ط:دار الاشاعت)

2-قضاء صرف فرض یا واجب کی ہوتی ہے، نفل اور سنت نمازوں کی قضاء نہیں ہوتی، البتہ فقہاء رحمہم اللہ نے  خلافِ قیاس فجر اور ظہر کی سنتیں اس سےمستثنی قرار دی ہیں؛ کیوں کہ حدیث میں ان کی قضا ثابت ہے، جن کی تفصیل یہ ہے کہ اگر فجر کی نماز (فرض و نفل دونوں) وقت پر نہ پڑھی گئی تو  اسی دن سورج طلوع ہونے کے بعد زوال سے پہلے فرض کے ساتھ سنتوں کی بھی قضا کرنا سنت ہے، اس دن کے زوال کے بعد صرف فرض کی قضا ہوگی سنتوں کی قضا نہیں ہو گی، اور اگر فرض نماز وقت پر پڑھی جائے صرف فجر کی سنتیں رہ جائیں تو اگر اسی دن سورج طلوع ہونے کے بعد زوال سے پہلے قضا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اور یہ مستحب ہے،  اور ظہر کی سنن قبلیہ (فرض نماز سے پہلے کی چار سنتیں)  اگر فرض نماز سے پہلے  نہ پڑھی جائیں تو فرض نماز کے بعد ان کی قضا کرنا سنت ہے، اور اس کو قضاء کہنا اپنی جگہ سے ہٹنے کی وجہ سے ہے،  ورنہ یہ  حقیقت میں قضاء نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ ظہر کے وقت کے اندر ہے۔ 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولا يقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح) لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل، بخلاف القياس فغيره عليه لا يقاس (بخلاف سنة الظهر...فإنه) إن خاف فوت ركعة (يتركها) ويقتدي (ثم يأتي بها) على أنها سنة (في وقته) أي الظهر.

(قوله ولا يقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لا يقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعا لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلا تقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع، لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل هذا قريب من الاتفاق لأن قوله أحب إلي دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لا يقضي، وإن قضى فلا بأس به.

(قوله لورود الخبر) وهو ما روي «أنه - صلى الله عليه وسلم - قضاها مع الفرض غداة ليلة التعريس بعد ارتفاع الشمس» كما رواه مسلم في حديث طويل. والتعريس: نزول المسافر آخر الليل كما ذكره في المغرب إسماعيل.

(قوله بخلاف القياس) متعلق بورود أو بقضائها فافهم، وذلك لأن القضاء مختص بالواجب لأنه كما سيذكره في الباب الآتي فعل الواجب بعد وقته فلا يقضي غيره إلا بسمعي، وهو قد دل على قضاء سنة الفجر فقلنا به، وكذا ما روي عن عائشة في سنة الظهر كما يأتي، ولذا نقول: لا تقضى سنة الظهر بعد الوقت فيبقى ما وراء ذلك على العدم كما في الفتح.

وقد استدل قاضي خان لقضاء سنة الظهر بما عن عائشة - رضي الله تعالى عنها - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر قضاهن بعده» فيكون قضاؤها ثبت بالحديث على خلاف القياس كما في سنة الفجر، كما صرح به في الفتح.

(قوله على أنها سنة) أي اتفاقا. وما في الخانية وغيرها من أنها نفل عنده سنة عندهما فهو من تصرف المصنفين، لأن المذكور في المسألة الاختلاف في تقديمها أو تأخيرها، والاتفاق على قضائها؛ وهو اتفاق على وقوعها سنة كما حققه في الفتح وتبعه في البحر والنهر وشرح المنية.

(قوله في وقته) فلا تقضى بعده لا تبعا ولا مقصودا بخلاف سنة الفجر."

 نط(كتاب الصلاة، باب ادراك الفريضة، ج:2، ص:58، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100165

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں