بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفع لے کر ویزہ فروخت کرنا


سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ : میں یہاں سعودی عرب میں گزشتہ 3 سال سے مقیم ہوں اور یہاں ایک مقامی ادارے میں ملاذمت پزیر ہوں ، جیسا کے آپ حضرات کو معلوم ہے کے سعودی عرب میں کام کرنے والوں کی اکثریت غیرملکیوں کی ہی ہے اور مختلف اداروں کو جب بھی افرادی قوت کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ مختلف ممالک کے لیے ویزوں کا اجراء کرتے ہیں لیکن یہ ویزے اصل میں بلا معاوضہ ہوتے ہیں لیکن آگے ادارے کے ہی کچھ لوگ چاہے وہ افراد سعودی ہوں یاغیر سعودی وہ ان ویزوں کو آگے بھاری معاوضے پر بھارت ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور دیگر غریب ممالک کی ایجنسیوں کو یا پھر بلاواسطہ ان ممالک کے امیدواروں کو فروخت کرتے ہیں ان غریب امیدواروں کی اکثریت ان افراد کی ہوتی ہے جو مختلف مجبوریوں کی بناء پر اپنی جمع پونجی ، بیویوں کے زیور ، یا اپنی زمینیں فروخت کرکے یہ بھاری معاوضے ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ تو کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان کرام اس بارے میں کے اسطرح ویزوں کی فروخت ان افراد کے لیے جائز ہوگی اور اس سے حاصل شدہ رقم کے بارے میں کیا حکم ہوگا ۔ براۓ مہربانی جواب عنایت فرما کر رہنمائی فرمائیں ۔جزاک اللہ ۔ فقط ۔کاشف احمدخاکپاۓ علماۓ حق

جواب

مذکورہ صورت میں جب ویزہ فراہم کرنے والے ادارے ویزے کے حصول کے لیے تگ و دوہ کرتے ہیں، اور پھر ان کے حاصل ہونے کے بعد، گو کہ یہ ویزے سرکار کی طرف سے مفت جاری ہوتے ہوں، تاہم یہ ادارے اس ویزہ کو مہیا کرنے کی خدمت کے بدلے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ مطالبہ شرعی نقطہ نگاہ سے ان کی اس محنت اور تگ و دوہ کے عوض کا مطالبہ ہے جو کہ جائز ہے۔ البتہ لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اپنی خدمت و محنت سے زیادہ نفع لینا مروت اور اخلاق کی رو سے انتہائی نا مناسب ہے۔ فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 143409200073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں