بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں کتنا منافع کمانا جائز ہے؟


سوال

کاروبار میں کتنا منافع کمانا جائز ہے،یعنی اگر میں ایک ہزار روپے کا سامان خرید کر ، چاہے وہ جوس کا ہو یا آئس کریم بنانے کا ہو مجھے اس میں کتنا منافع کمانا چاہیے؟

جواب

عمومی اشیاء اور عمومی حالات میں کسی چیز کو خریدنے کے بعد آگے فروخت پر نفع کی کوئی مقدار شرعاً متعین نہیں ہے، لیکن یہ  خیال رہے کہ خریدار  کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر اس پر  ناقابلِ برداشت بوجھ  نہ ڈالا جائے۔

البتہ خوراک اور غذائی اجناس  کی اگر قلت ہو تو بحرانی حالت میں ذخیرہ اندوزی کی طرح اناج وغیرہ کو مارکیٹ ریٹ کے اوپر اتنے زیادہ نفع پر بیچنا جائز نہیں ہوگا جس سے لوگوں کا حرج ہو، اس حالت میں مارکیٹ ریٹ یا ہوسکے تو اس سے بھی کم نفع پر فروخت کرنے کو شریعت نے پسند کیاہے۔  حدیثِ مبارک کا مفہوم ہے: بدترین بندہ ہے ذخیرہ اندوز، اگر اللہ تعالیٰ نرخ ارزاں کردے تو غمگین ہوتا ہے، اور اگر نرخ گراں کردے تو خوش ہوجاتاہے۔ شدید غذائی بحران کی حالت میں حاکمِ وقت کو انصاف مدِّ نظر رکھتے ہوئے نرخ متعین کرنے کا بھی حق ہے۔

بہرحال  اگر غذا کا بحران نہ ہو یا ایسی اشیاء جن پر زندگی کا گزران اور مدار نہ ہو، ان کی فروخت میں نفع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، تاہم حرص وہوس شریعت میں ایک ناپسندیدہ خلق (وصف) ہے، دنیا کی محبت اور لالچ  دل کے گناہ ہیں، اس لیے عمومی احوال میں بھی مارکیٹ ریٹ یا اس سے کسی قدر  کمی بیشی کے ساتھ اشیاء فروخت کرنی چاہییں۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144208201200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں