بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مستعمل چیز کو نئی کے ساتھ ملاکر بیچنا/ نفع کی شرعی حد


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:

1- مستعمل جیکٹ  ( جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بیرون ممالک میں کم استعمال شدہ جیکٹ ہندوستان آتی ہیں اور وہ یہاں آکر تھوک میں بیچی جاتی ہیں ان میں بہترین کوالٹی کی بھی جیکٹس ہوتی ہیں اور اچھی کوالٹی کی بھی جس کو پہنا جاسکے ) تو ان میں سے بہترین کوالٹی کی جیکٹ جو  دکھنے میں نئی جیسی ہو ان کو نئی میں ملا کر بیچنا جائز ہے یا نا جائز؟  جب کہ اس کی صورت یہ ہے کہ نہ مشتری کو یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ نئی ہے یا پرانی نہ وہ دکھنے میں پرانی لگ رہی ہیں!

2- اگر کسی شخص کی مارکیٹ میں کپڑے کی دکان ہے، اس کپڑے کی لاگت مثلاً اسے 3000پڑتی ہے تو وہ اس پر کتنا منافع کما سکتا ہے، جب کہ اس کے ذمہ دکان کا کرایہ بل اور لیبر کا ماہانہ بھی ہو؟

جواب

1- صورتِ مسئولہ میں اگر یہ شخص ان نئی جیسی جیکٹوں کو نئی جیکٹوں کے ساتھ ملا کر رکھے جس سے مشتری یہ سمجھے کہ یہ بالکل نئی ہے ،لیکن حقیقت میں وہ استعمال شدہ ہوں ،یہ صورت  دھوکا ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنا  چاہیے اور بالکل غیر استعمال شدہ جیکٹ ہو  کو علیحدہ اوران جیکٹوں کو جو اگرچہ کوالٹی میں بہتر ہوں،  لیکن استعمال شدہ ہوں،  ان کو علیحدہ رکھ کر بیچنا چاہیے، یا وضاحت کردینی چاہیے۔

2-  اصولی طور پر کاروبار میں نفع کی حد مقرر نہیں،  دھوکا دیے بغیر  نفع کی کوئی حد وصول کرسکتا ہے، البتہ بازاری قیمت سے غیر معمولی زیادہ قیمت وصول کرنا مناسب نہیں۔

واضح رہے کہ غذائی بحران کی صورت میں حکومت کی طرف سے غذائی اجناس کی قیمت یا نفع کی شرح مقرر کرنے کی گنجائش ہے، غذا کے علاوہ دیگر چیزوں کی قیمت، نیز جب غذائی بحران نہ ہو تو غذا سے متعلقہ اشیاء کی قیمت بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی سے جو بھی طے ہوجائے جائز ہے، اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ البتہ جہاں کسی چیز کی شدید ضرورت ہو، اور بازار میں اس چیز کے نہ ہونے سے انسانی زندگی متاثر ہوتی ہو اور بیچنے والا اس کی متعارف قیمت سے بہت زیادہ وصول کرے یا اس چیز کی قیمتِ خرید کے نصف کے برابر یا اس سے زیادہ نفع رکھے تو فقہاءِ کرام نے بعض صورتوں میں اسے غبنِ فاحش کے تحت داخل کرکے ممنوع قرار دیا ہے۔ 

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

’’سوال: نفع لینا شرع میں کہاں تک جائز ہے؟

جواب: نفع جہاں تک چاہے لے، لیکن کسی کو دھوکا نہ دے‘‘۔ 

(فتاوی رشیدیہ، جواز اور حرمت کے مسائل 555 ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں