بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نیگلیریا وائرس کی وجہ سے وجہ سے وضو اور غسل میں ناک میں پانی نہ ڈالنا


سوال

آج کل پاکستان میں ایک پانی کا وائرس نیگلیریا آیا ہوا ہے ،جس کا نام نیگلیریا ہے، اور اس کی وجہ سے کئی لوگ بھی فوت ہوئے ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں: کہ جن جن کو یہ وائرس لگا ہوا ہے ان میں سے کوئی بچ نہیں سکا اور یہ وائرس ناک کے ذریعے دماغ میں جاتا ہے اور دماغ کھانا شروع کر دیتا ہے جس سے لوگ مر جاتے ہیں۔

کیا اس وائرس یا بیماری کی وجہ سے ہم وضو اور غسل کے دوران ناک میں پانی ڈالنے سے پرہیز کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت کے وہ احکام جن کا ثبوت قطعی اور یقینی ہے اور وہ فرض کے درجہ میں ہیں ، ان کو تب تک نہیں چھوڑا جاسکتا جب تک دلیل قطعی  اس کے ترک پر موجود نہ ہو،محض وہم وگمان کی بنا پر شریعت کے اس یقینی اور قطعی حکم کو نہیں چھوڑا جائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں نیگلیریا جو پانی میں پائے جانے والا ایک وائرس ہے،اس کا ہر پانی میں ہونا یقینی نہیں ہوتا۔

اسی لیے اس کی وجہ سے  غسل جنابت میں ناک میں پانی ڈالنے سے پرہیز کرنا درست نہیں ،البتہ زیادہ خطرہ ہو تو پانی کو ابال کر استعمال کریں،اور ناک میں پانی ڈال کر اسے بہت زور سے اوپر نہ کھینچیں کہ پانی دماغ تک جائے،ناک میں پانی ڈالنے کے بعد ناک کو جھاڑنے کا اہتمام کریں۔

البتہ وضو میں ناک میں پانی  ڈالنا چوں کہ فرض نہیں ،بلکہ سنت ہے،اسی لیے وضو کرتے وقت اگر پانی نہ ڈالا جائے تو گنجائش ہوگی،البتہ بہتر یہ ہے ایک امر موہوم کی وجہ سے سنت کو نہ چھوڑا جاۓ،بلکہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے سنت کے مطابق وضو کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

البنایہ شرح الھدایہ میں ہے:

"اليقين لا يزول بالشك."

(كتاب الصوم، ج:4، ص:101، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و‌‌فرض الغسل) أراد به ما يعم العملي كما مر، وبالغسل المفروض كما في الجوهرة، وظاهره عدم شرطية غسل فمه وأنفه في المسنون كذا البحر، يعني عدم فرضيتها فيه وإلا فهما شرطان في تحصيل السنة (غسل) كل (فمه) ويكفي الشرب عبا؛ لأن المج ليس بشرط في الأصح (وأنفه) حتى ما تحت الدرن (و) باقي (بدنه).

وفي الرد: أقول: فيه أن الغسل في الاصطلاح غسل البدن، واسم البدن يقع على الظاهر والباطن إلا ما يتعذر إيصال الماء إليه أو يتعسر كما في البحر، فصار كل من المضمضة والاستنشاق جزءا من مفهومه فلا توجد حقيقة الغسل الشرعية بدونهما، ويدل عليه أنه في البدائع ذكر ركن الغسل وهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج، ثم قسم صفة الغسل إلى فرض وسنة ومستحب، فلو كانت حقيقة الغسل الفرض تخالف غيره لما صح تقسيم الغسل الذي ركنه ما ذكر إلى الأقسام الثلاثة، فيتعين كون المراد بعدم الفرضية هنا عدم الإثم كما هو المتبادر من تفسير الشارح لا عدم توقف الصحة عليهما، لكن في تعبيره بالشرطية نظرا لما علمت من ركنيتهما فتدبر." 

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:151، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(الفصل الثاني في سنن الوضوء) وهي ثلاث عشرة على ما ذكر في المتون.

(ومنها المضمضة والاستنشاق) والسنة أن يتمضمض ثلاثا أولا ثم يستنشق ثلاثا ويأخذ لكل واحد منهما ماءً جديدًا في كل مرة، كذا في محيط السرخسي. وحد المضمضة استيعاب الماء جميع الفم وحد الاستنشاق أن يصل الماء إلى المارن، كذا في الخلاصة ..."

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:6، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں