ایک صاحب کا سالہ ہے جو اپنی جمع پونجی سمیت کام کے لئے باہر چلا گیا لیکن کام نہیں ملا اور وہ تنگ آکر واپس آ نا چاہتا ہے اور اس کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ واپس لوٹ آ ہے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیاایسےشخص کوزکات کی رقم دی جا سکتی ہے ؟
واضح رہے کہ اگر مسافرکے پاس سفر کےدوران کسی وجہ سے پیسے ختم ہوجائیں،اور جہاں موجود ہو، وہاں کسی سے قرض کے طور پر لینے کی بھی کوئی صورت نہ بنے،تو ایسے مسافر کو بقدرِ ضرورت زکوۃ لینا اور اس کو زکوۃ دینا جائز ہے۔
لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص کےپاس اپنے وطن واپس آنے کے پیسے نہیں ہیں،اور نہ قرضہ لینے کی کوئی صورت ہےتو سائل کے سالہ کو بقدرِ ضرورت زکات دی جاسکتی ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(ومنها ابن السبيل) ، وهو الغريب المنقطع عن ماله كذا في البدائع. جاز الأخذ من الزكاة قدر حاجته، ولم يحل له أن يأخذ أكثر من حاجته وألحق به كل من هو غائب عن ماله، وإن كان في بلده؛ لأن الحاجة هي المعتبرة ثم لا يلزمه أن يتصدق بما فضل في يده عند قدرته على ماله كالفقير إذا استغنى كذا في التبيين. والاستقراض لابن السبيل خير من قبول الصدقة كذا في الظهيرية."
(كتاب الزكوة، الباب السابع في المصارف، 1/ 188، ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144504102194
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن