بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نچوڑے بغیر صرف نلکے کے نیچے ناپاک کپڑے ڈال دینے سے کپڑے پاک ہوجاتے ہیں؟


سوال

ناپاک کپڑے پر ظاہری نجاست لگی تھی، نلکے کے نیچے اس نجاست لگی ہوئی جگہ پرپانی بہا دیا اور ہاتھ سے ملا ،جس کی وجہ سے نجاست دھل گئی ،لیکن کپڑے کے اس حصہ کو نچوڑا نہیں، تو کیا کپڑا پاک ہوگيا؟ یا نچوڑنا لازم ہے؟

جواب

اگرنجاست مرئی ہویعنی نظرآنے والی ہوتو جس جگہ نجاست لگی ہواس کاازالہ ضرروی ہے،اگرچہ ایک مرتبہ دھونےسے ہی وہ زائل ہوجائے،جب نجاست زائل ہوگئی تواب وہ کپڑا پاک شمارہوگا،اوراگرنجاست نظرآنے والی نہیں بلکہ ایسی ہے کہ وہ کپڑے وغیرہ میں سرایت کرچکی ہے جذب ہوچکی ہے تواس صورت میں تین مرتبہ اس کپڑےکودھویاجائے گا، اوراگرنچوڑناممکن ہوتوہربارنچوڑدنا ضروری ہے، اور اگر نچوڑنا ممکن نہ ہو تو  پھر  تین مرتبہ  دھوکر اتنی دیر چھوڑدینا  ضروری ہے کہ  قطرے ٹپکنا بندہوجائیں،لیکن اگر کھلے نلکے کے نیچے کپڑے رکھ کر اتنا پانی بہادیاجائے کہ نجاست کے نکلنے کا یقین یا ظن غالب ہوجائے  تب بھی کپڑے پاک ہوجائیں گے ،لہذا صورتِ مسئولہ  میں کپڑوں کو لگی ہوئی   نجاست اگرظاہری  جرم والی تھی،اور کپڑوں کو نلکے کے نیچے ڈالنے کے بعد اس پر اچھی طرح پانی  بہا کراور ہاتھ سے مل لیاتھا ، اور نجاست  (گندگی ) کے اثرات بالکل ختم ہوگئے تھے تو اس طرح  دھونے سے   کپڑے پاک ہوگئے تھے اگر چہ اس کو نچوڑ ا نہیں  گیا، اسی طرح  اگر  کپڑوں  پرلگی ہوئی نجاست جذب  ہوجانے والی تھی اور کپڑوں میں سرایت کرگئی تھی اور اسے کھلے نلکے کے نیچے اتنی دیر تک دھویا  کہ اس نجاست کے  نکل جانے کا گمان غالب ہوگیا تھا تو ایسی  صورت میں بھی یہ کپڑے پاک شمار ہوں گے ۔

رد المحتار ميں ہے:

"ان المتنجس اما ان لا یتشرب فیہ اجزاء النجاسة اصلا کالاوانی المتخذة من الحجر والنحاس والخزف العتیق، او یتشرب فی قلیلا کالبدن والخف والنعل، او یتشرب کثیرا ففی الاول طھارتہ بزوال عین النجاسة المرئیة او بالعدد وفی الثانی کذلک لان الماء یستخرج ذلک القلیل، فیحکم بطھارتہ واما فی الثالث فان کان مما یمکن عصرہ کالثیاب فطھارتہ بالغسل والعصر الی زوال المرئیة وفی غیرھا بتثلیثھاـ ـ ـ ۔ ۔ ان علم انہ لم یتشرب فیہ بل اصاب ظاھر یطھر بازالة العین بالغسل ثلاثا بلا عصر."

(كتاب الطهارة،باب الأنجاس : ج:1،ص:332،ط: سعید )

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"و" يطهر محل النجاسة "غير المرئية بغسلها ثلاثاً" وجوباً، وسبعاً مع الترتيب ندباً في نجاسة الكلب خروجاً من الخلاف، "والعصر كل مرة" تقديراً لغلبةالظن في استخراجها في ظاهر الرواية وفي رواية يكتفي بالعصر مرة وهو أوفق ووضعه في الماء الجاري يغني عن التثليث والعصر.قوله: "ووضعه في الماء الجاري الخ"یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة".

(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح / ص:161 ، 162، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لا يقطر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار.۔۔۔۔۔ أقول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة ولو في إجانة كما مر، فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن في تطهير غير المرئية بلا عدد على المفتى به، أو مع شرط التثليث على ما مر، ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلاً ويخلفه غيره مراراً بالجريان أقوى من الغسل في الإجانة التي على خلاف القياس ؛ لأن النجاسة فيها تلاقي الماء وتسري معه في جميع أجزاء الثوب فيبعد كل البعد التسوية بينهما في اشتراط التثليث، وليس اشتراطه حكماً تعبدياً حتى يلتزم وإن لم يعقل معناه، ولهذا قال الإمام الحلواني على قياس قول أبي يوسف في إزار الحمام: إنه لو كانت النجاسة دماً أو بولاً وصب عليه الماء كفاه، وقول الفتح: إن ذلك لضرورة ستر العورة كما مر، رده في البحر بما في السراج، وأقره في النهر وغيره. (قوله: في غدير) أي: ماء كثير له حكم الجاري. (قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثاً ؛ لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر، هو الصحيح، سراج. (قوله: بلا شرط عصر) أي: فيما ينعصر، وقوله: " وتجفيف " أي: في غيره، وهذا بيان للإطلاق". 

(ردالمحتار، كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج: 1، ص: 331 (الي) 333 ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144309100666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں