بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناچنے والے کی امامت


سوال

مدرسہ کاایک طالب العلم ہے جو درجہ رابعہ میں پڑھ رہا ہے،اس نے امام کی جگہ کئی بار مسجد میں جماعت بھی کرائی ہے، کچھ دن پہلے میں نے اسے ایک شادی میں عورتوں کے ساتھ ناچتے ہوئے دیکھا، اور آج ظہر کو پھر امام کی جگہ جماعت کرا رہا تھا، تو کیا اس کے پیچھے جماعت ادا کرنا صحیح ہے ؟ جب کہ مسجد میں دیگر طلباء بھی موجود ہوتے ہیں۔

جواب

ناچنے گانے والا فاسق ہے اور فاسق شخص کو اپنے اختیار سے امام بنانا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے، البتہ اگر کوئی متدین امام میسر نہ ہو اور ایسا شخص خود امامت کے لیے آگے بڑھ گیا ہو یا پہلے سے یہ شخص امام  ہو اوراس  شخص کی اقتدا نہ کرنے کی صورت میں جماعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں اس شخص کے پیچھے نماز ادا کرنا انفراداً نماز ادا کرنے سے بہتر ہے،  نماز بہر حال ایسے شخص کی اقتدا میں ہوجائے گی، واجب الاعادہ نہیں ہوگی،  لیکن اگر متبادل صورت ہوسکتی ہو تو ایسے شخص کی اقتدا  کی عادت نہیں بنانی چاہیے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں مذکورہ طالب علم کاکسی ایک، آدھ موقع پر امام مسجد کی غیرموجودگی میں جماعت کرانے سے نماز ہوجائے گی، البتہ اگر اس کے علاوہ دیگر طلباء بھی موجود ہوں  تو بہتر یہ ہے کہ اس کے علاوہ کوئی طالب العلم امامت کرائے۔

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"كره إمامة الفاسق، .... والفسق لغةً: خروج عن الاستقامة، وهو معنی قولهم: خروج الشيء عن الشيء علی وجه الفساد. وشرعاً: خروج عن طاعة اﷲ تعالی بارتكاب كبیرة. قال القهستاني: أي أو إصرار علي صغیرة. (فتجب إهانته شرعاً فلایعظم بتقدیم الإمامة) تبع فیه الزیلعي ومفاده كون الکراهة في الفاسق تحریمیة."

(كتاب الصلاة، ‌‌فصل: في بيان الأحق بالإمامة، ص:303، ط:دارالكتب العلمية بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة.

"(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:652، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"ومن يستحل الرقص قالوا بكفره ... ولا سيما بالدف يلهو ويزمر.

 (قوله: ومن يستحل الرقص قالوا بكفره) المراد به التمايل والخفض والرفع بحركات موزونة كما يفعله بعض من ينتسب إلى التصوف.

وقد نقل في البزازية عن القرطبي: إجماع الأئمة على حرمة هذا الغناء وضرب القضيب والرقص. قال: ورأيت فتوى شيخ الإسلام جلال الملة والدين الكرماني: أن مستحل هذا الرقص كافر، وتمامه في شرح الوهبانية. ونقل في نور العين عن التمهيد: أنه فاسق لا كافر."

(كتاب الجهاد، ‌‌مطلب المعصية تبقى بعد الردة، ج:4، ص:259، ط:سعيد)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"مندرجہ بالا آیات و احادیث سے رقص مذکور کی حرمت صراحۃً ثابت ہوتی ہے۔ بالخصوص جب اس میں غیر محرم سے اختلاط و مباشرت بھی ہو تو حرمت مزید مغلظ ہو جاتی ہے۔ ایسے فحشاء کے کرنے والا فاسق فاجر مرتکب کبیرہ ہے۔"

(باب الحظر والاباحۃ، جس شخص کی بہن، بیٹی اور بیوی وغیرہ ڈانس کرتی ہو اس سے ہم کیا تعلقات رکھیں، ج:11، ص:215، ط:جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں