میرے شادی کے پانچ سال ہوئے ہیں، 6 فروری 2024ء کو میرے شوہر نے نشے کی حالت میں میری غیر موجودگی میں کاغذ پر لکھا:” میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں ،میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں“ اس کاغذ کو میرے شوہر نے پھاڑ کر پھینک دیا ہے، اس وقت میں حمل سے تھی، اور مجھے یہ بات چار ماہ بعد معلوم ہوئی، اتنے وقت سے ہم ساتھ رہے تھے، اور رجوع بھی ہوگیا تھا، اور اس دوران ہمارے درمیان میاں بیوی والا تعلق بھی قائم ہوتا رہا،اور اب 5 نومبر 2024ء کو فون پر جھگڑا ہوا، شوہر نے فون پر کہا:” دو میں نے پہلے لکھی تھی، آج ایک طلاق دے رہا ہوں“ ، سوال یہ ہے کہ:
1۔کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں ؟ رجوع یا تجدید نکاح کی کوئی صورت ہے یا نہیں؟ہم دونوں ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں، میں اب بھی حمل سے ہوں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً شوہر نےنشے کی حالت میں کاغذ پر یہ لکھا تھاکہ ” میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں ،میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں“ تو اس سے سائلہ پر دو طلاقیں واقع ہوچکی تھیں ، ان دو طلاقوں کے بعد جب عدت کے اندر اندر رجوع ہوچکا تھا تو اس سے نکاح برقرار رہا اور آئندہ کے لیے اب شوہر کو فقط ایک طلاق کا حق باقی تھا۔ اب جب شوہر نے فون پریہ الفاظ کہے ہیں کہ :” دو میں نے پہلے لکھی تھی، آج ایک طلاق دے رہا ہوں“ تو اس سے سائلہ پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، سائلہ اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہیں ، اب شوہر کو رجوع یا تجدید نکاح کی گنجائش نہیں۔بلکہ اب عورت پر عدت کا گزارنا لازم ہے ، اور مذکورہ صورت میں چوں کہ سائلہ حمل سے ہیں تو عدت بچے کی پیدائش تک ہے ، بچے کی پیدائش سے عدت مکمل ہوجائے گی، اور سائلہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
المبسوط السرخسی میں ہے:
"(قال) ولا تحل له المرأة بعد ما وقع عليها ثلاث تطليقات حتى تنكح زوجا غيره يدخل بها والطلاق."
(كتاب الطلاق، ج: 6، ص: 8، ط: دار المعرفة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وطلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط."
(كتاب الطلاق، الباب الأول، فصل فيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه، ج: 1، ص: 353، ط: دارالفکر)
وفيه ايضاً:
"وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج: 1، ص: 528، ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة."
(كتاب الطلاق، ركن الطلاق،ج: 3، ص: 236، ط: سعید)
وفيه ايضاً:
"قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة... وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة."
(كتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالكتابة، ج: 3، ص: 246، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100762
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن