بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نبی اور رسول میں فرق


سوال

نبی اور رسول میں فرق کیاہے؟

جواب

 اس سلسلے میں قرآن وحدیث کی کسی نص میں تو کوئی صراحت نہیں ہے ،البتہ علماء نے نصوص میں غور وفکر کرکے اپنی فہم کے اعتبار سےرسول اور نبی  میں فرق بیان کیا ہے،اس لیے اس بارے میں متعدد اقوال ہیں،مشہور  قول کے مطابق  ’’رسول‘‘ اس پیغمبر کو کہتے ہیں جس کو نئی کتاب اور نئی شریعت دی گئی ہو۔  اور ’’نبی‘‘ ہر پیغمبر کو کہتے ہیں، چاہے اسے نئی شریعت دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو اور وہ اپنے سے پہلے والےرسول اور اس کی شریعت کا متبع ہو۔(از کشف الباری،ج1،ص226،ط؛مکتبہ فاروقیہ)

 حکیم الامت  حضرت  تھانوی رحمہ اللہ  دونوں کےفرق کو بیان کرتے ہوئے  فرماتے ہیں :

’’ان دونوں  میں  عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے، ’’رسول‘‘ وہ ہے جو مخاطبین کو شریعتِ جدیدہ پہنچائے، خواہ وہ شریعت خود اس رسول کے اعتبار سے بھی جدید ہو جیسے تورات وغیرہ یا صرف ان کی امت کے اعتبار سے جدید ہو جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شریعت، وہ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قدیم شریعت ہی تھی، لیکن ’’قوم جرہم‘‘ جن کی طرف ان کو مبعوث فرمایا تھا، ان کو اس شریعت کا علم پہلے سے نہ تھا، حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی کے ذریعہ ہوا۔ اس معنی کے اعتبار سے رسول کے لیے نبی ہونا ضروری نہیں، جیسے فرشتے کہ وہ رسول تو ہیں مگر نبی نہیں ہیں، یا جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے فرستادہ قاصد جن کو آیتِ قرآن(( اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ))[سورة یٰس :13]میں رسول کہا گیا ہے، حال آں کہ وہ انبیاء نہیں تھے۔
اور نبی وہ ہے جو صاحبِ وحی ہو خواہ شریعتِ جدیدہ کی تبلیغ کرے یا شریعتِ قدیمہ کی، جیسے اکثر انبیاءِ بنی اسرائیل شریعتِ موسویہ  کی تبلیغ کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک اعتبار سے لفظِ رسول نبی سے عام ہے اور دوسرے اعتبار سے لفظِ نبی بہ نسبت رسول کے عام ہے، جس جگہ یہ دونوں لفظ ایک ساتھ استعمال کیےگئے جیسا کہ  سورۃ مریم میں(( رَسُوْلاً نَّبِیًّا ))[آيت 54]آیا ہے، وہاں تو کوئی اشکال نہیں کہ خاص اور عام دونوں جمع ہو سکتے ہیں، کوئی تضاد نہیں، لیکن جس جگہ یہ دو لفظ باہم متقابل آئے ہیں جیسے ((وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ ))[سورة الحج :52]میں تو اس جگہ   بقرینہ مقام  لفظِ ِنبی کو خاص اس شخص کے معنی میں لیا جائے گا جو شریعتِ سابقہ کی تبلیغ کرتا ہے۔‘‘

( بحوالہ معارف القرآن، ج6،ص42، سورۂ مریم، ط: مکتبہ معارف القرآن)

كثف اصطلاحات الفنون والعلوم میں ہے:

"وقد تخصّ الرّسالة بالتبليغ أو بنزول جبرئيل عليه السلام أو بكتاب أو بشريعة جديدة أو بعدم كونه مأمورا بمتابعة شريعة من قبله من الأنبياء. وبالجملة فالرّسول بالفتح إمّا مرادف للنبي وهو إنسان بعثه الله تعالى بشريعة سواء أمر بتبليغها أم لا، وإليه ذهب جماعة. وإمّا أخصّ منه كما ذهب إليه جماعة أخرى. واختلفوا في وجه كونه أخصّ. فقيل لأنّ الرّسول مختصّ بالمأمور بالتبليغ إلى الخلق بخلاف النبي. وقيل لأنه مختصّ بنزول جبرئيل عليه السلام بالوحي.

وقيل لأنّه مختصّ بشريعة خاصة بمعنى أنّه ليس مأمورا بمتابعة شريعة من قبله. وقيل لأنّه مختصّ بكتاب هكذا يستفاد من العلمي حاشية شرح هداية الحكمة وبعض شروح مختصر الأصول. وقال بعضهم إنّ الرّسول أعمّ وفسّره بأنّ الرّسول إنسان أو ملك مبعوث بخلاف النبي فإنّه مختص بالإنسان، كذا ذكر المولوي عبد الحكيم في حاشية الخيالي في بحث خبر الرسول. وفي أسرار الفاتحة: النبي هو الذي يرى في المنام والرّسول هو الذي يسمع صوت جبرئيل عليه السلام ولا يراه، والمرسل هو الذي يسمع صوته ويراه انتهى. والمفهوم من مجمع السلوك عدم الفرق بين الرّسول والمرسل حيث قال: المرسل عند البعض ثلاثمائة وثلاثة عشر وعند البعض ثمانية عشر وأولو العزم منهم ستة نفر: آدم ونوح وإبراهيم وموسى وعيسى ومحمد صلوات الله عليهم أجمعين انتهى. ولا شك في إطلاق الرسل عليهم أيضا."

(حرف الراء،ج1،ص860،مکتبۃ لبنان ناشرون)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں