بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک پر گنبد کیوں؟


سوال

گنبدِ خضریٰ کا کیاجوازہے؟ جب کہ قبرںپر گنبد بناناجائز نہیں ہے!

جواب

صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ سرورِ عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے اور اُن پر تعمیر کرنے سے ممانعت فرمائی ہے، اس لیے کسی بھی مسلمان کی قبر کو پختہ بنانا ہرگز جائز نہیں ہے، خواہ اولیاء اللہ اور بزرگانِ دین کی قبریں کیوں نہ ہوں، بلکہ اولیاء اللہ کے معاملے میں احکامِ شریعت کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے، کیوں کہ ان حضرات کی پوری زندگیاں سنت رسول اللہ کی اشاعت اور شریعت کی حفاظت میں گزری ہیں، اور یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ سرورِ عالم حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی کچی ہی ہے، پختہ نہیں ہے، البتہ چوں کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ نبی کا مدفن وہی جگہ بنتی ہے جہاں وہ دنیا سے پردہ فرماتے ہیں، اس لیے اس حکم کی تعمیل میں آپ کا روضۂ مبارکہ حجرۂ عائشہ میں بنایا گیا، جو پہلے ہی تعمیر شدہ تھا، گویا کہ آپ کی قبرِ اطہر پر دفن کے بعد کوئی تعمیر نہیں ہوئی، بلکہ پہلے سے بنی ہوئی تعمیر میں حسبِ حکمِ نبوی تدفین ہوئی ہے، اور آج روضۂ اقدس علی صاحبہا الصلوۃ والسلام پر جو شان دار عمارت اور دیدہ زیب سبز  گنبد بنا ہوا ہے، یہ اسی سابقہ تعمیر کی تجدید کی حیثیت رکھتاہے، بہر حال اپنے ہی گھر میں تدفین یہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔

جب آں حضرت ﷺ کی تدفین کمرہ میں مقصود تھی؛ کیوں کہ وفات کا کمرہ مکان ِ تدفین ہے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا تو عمارت کی بقا بھی مقصود ہو گی اور اس کی بقا کا طریقہ عمارت کی پختگی ہے؛ اس لیے پختہ مکان آپ کے لیے منع نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تدفین عمارت میں تبعاً ہے، کسی اور کی قبر پر پختہ تعمیر کر نا صحیح نہیں۔

اب حجرے اور تعمیر کا بقا تو مطلق تعمیر سے بھی ہوسکتا تھا، اس پر گنبد بنانا بعد کے مسلمان حکم رانوں کا فعل ہے، اور اب تعمیر ہونے کے بعد اسے منہدم کرنا علاوہ دیگر بہت سے مفاسد کے، قبورِ مبارکہ کی بے ادبی ہے، اس لیے اسے باقی رکھنے میں ہی اَدب ہے۔

مسلم شریف میں ہے :

"94 - (970)حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حفص بن غياث، عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر، وأن يقعد عليه، وأن يبنى عليه»."

(صحيح مسلم (2 / 667)

شامی میں ہے :

"أما البناء علیه فلم أر من اختار جوازہ في شرح المنیة عن منیة المفتي المختار أنه لایکره التطیین وعن أبي حنیفة یکره أن یبنی علیه بناء من بیت أوقبة أو نحو ذلك لما روی جابر: نهی رسول ﷲ ﷺ عن تجصیص القبور و أن یكتب علیها و أن یبنی علیها."

(رد المحتار ۲ / ۲۳۷)

نیز فتاوی عالمگیری۱/۱۶۶۔ وفتاوی تاتارخانیۃ۶/۱۷۱۔ومراقی الفلاح:۳۳۵۔ شرح منیۃ:۵۹۹ ۔ فتاوی محمودیہ ۱۰/۲۸۹ ۔  وفتاوی رحیمیہ ۳/۹۵ ۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"تحریر المختار میں تفسیر روح البیان سے اس کا جواز نقل کیا ہے ،لیکن تفسیر روح البیان خود کوئی معتبر کتاب نہیں، اس میں بہت سے مسائل غیر معتبر موجود ہیں، پھر یہ کہ اس جواز کے لیے کوئی سند نقل نہیں کی محض قصدِ تعظیم اور اجلال پر اعتماد کیا ہے، ایسے مسائلِ منصوصہ میں کسی کا قول بغیر سند خلافِ نص کیسے حجت ہو سکتا ہے؟" (فتاوی محمودیہ، ۹/ ۱۵۳)

تر مذی شریف میں ہے :

"1018 - حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ، قَالَ: مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلاَّ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ، ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ.

هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيُّ يُضَعَّفُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الوَجْهِ، فَرَوَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا."

سنن الترمذي  (2 / 329)

ابن ماجہ شریف (1 / 520) میں ہے :

"فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا قُبِضَ نَبِيٌّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ» قَالَ: فَرَفَعُوا فِرَاشَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ عَلَيْهِ، فَحَفَرُوا لَهُ."

در مختار میں ہے :

"ولاینبغي أن یدفن المیت في الدار و لوکان صغیراً؛ لاختصاص هذه السنة بالأنبیاء."

علامہ شامی فرماتے ہیں :

"و هو أعم من قول الفتح: ولایدفن صغیر و لا کبیر في البیت الذي مات فیه؛ فإن ذلك خاص بالأنبیاء."(شامی۲/ ۲۳۵)

رہی یہ بات کہ گنبد خضراء کب تعمیر کیا گیا تو اس سلسلہ میں حضرت مفتی محمود صاحب ؒنے تحریر فرمایا ہے :

"ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں حجرہ خام (کچا) کو گرا کر منقش پتھروں سے تعمیر کیا گیا اور ایک حظیرہ بنا یا گیا حضرت عروہ  نے منع بھی کیا، لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی، پھر وقتاً فوقتاً تغیر وتزیین ہو تی رہی حتی کہ ۶۷۸ ؁ھ میں قبہ خضراء تعمیر کیا گیا۔"  (فتاوی محمودیہ ۱۰ / ۲۹۴)

تاریخ ِمدینہ منوّرۃ میں ہے:

"گنبد کی تعمیر:۶۷۸؁میں الملک المنصور قلدون صالحی کے عہد میں حجرہ شریف پر قبّہ بنایا گیا، اس سے پہلے قبّہ نہیں تھا، قبّہ نیچے سے مربّع اور اوپر سے مثمن (آٹھ گوشہ) تھا۔ دیواروں کے سروں پر لکڑی کے تختے قائم کر کے ان کے اوپر لکڑی کی تختیاں اور ان پر سیسہ کی پلیٹیں لگادی گئی۔"

(تاریخِ مدینہ منوّرۃ ۸/۲۶۷)

جس کی تفصیل خلاصہ "وفاء الوفاء" میں علامہ سہمودی نے تحریر فرمائی ہے۔ ملاحظہ ہو:

"وأما قبۃ الحجرۃ الشریفۃ المحاذیۃ لھا بأعلی سطح المسجد تکییزا لھا قبل حریق المسجد الأوّل ولا بعدہ الی دولۃ المنصورقلدون الصالحی بل کان قدیما حول ما یوازی الحجرۃ فی سطح المسجد حظیرمن آجرمقدارنصف قامۃ تمییزا لھا عن بقیۃ سطح المسجد حتی کانت سنۃ ثمان وسبعین وستمائۃ فعل ھناک قبۃ مربعۃ من أسفلھا مثمنۃ من أعلاھا أخشاب أقیمت علی رؤس السواری المحیطۃ بالحجرۃ الشریفۃ فی صف أسطوان الصندوق وسمرعلیھا ألواح من خشب ومن فوقھا ألواح الرصاص وفی أسفلھا طاقۃ یبصرالناظرمنھا سقف المسجد الأسفل الذی کان بہ الطابق وعلیہ المشمع وکان حول ھذہ القبۃ بالسطح الأعلی ألواح رصاص مفروشۃ فیما قرب منھا ویحیط بھا وبالقبۃ درازبین من الخشب جعل مکان حظیرالآجروتحتہ أیضا السقفین شباک خشب یحکیہ وکان المتولی لعملھا الکمال أحمد بن البرھان الربعی ناظرقوص ذکرہ فی الطالع السعید…،وجددت القبۃ الشریفۃ المزکورۃ أیام الناصرحسن محمد بن قلدون فاختلت الألواح الرصاص من موضعھا فخشوا من الأمطار فجددت أیضا وأحکمت أیام الأشراف شعبان بن حسین بن محمد سنۃ خمس وستین وسبعمائۃ وأصلح فیھا متولی العمارۃ شیئا فی عمارتہ الآتیۃ فی الفصل بعدہ ثم احترقت فی حریق المسجد الثانی فاقتضی رأی متولی العمارۃ سنۃ سبع وثمانین وثمانمائۃ اتخذھا فی العلووأن تکون من آجروأن یؤسس لھا دعائم عظام بأرض المسجد وعقود حولھا فأتخذ ھذہ الدعائم التی فی موازاۃ الأساطین التی الیھا المقصورۃ السابقۃ وأبدل بعض الأساطین بدعائم وأضاف الی بعضھا أسطوانۃ أخری وقرن بینھما وحصل فیما بین جدار المسجد الشرقی وبین العائم المحدثۃ ھناک ضیق فھدم الجدار الشرقی ھنالک الی باب جبریل وخرج بالجدار فی البلاط ناحیۃ موضع الجنائزنحو ذراع ونصف وأحدث دعامتین عن یمین مثلث الحجرۃ ویسارہ الأولی منھما فی المحل الذی سبق فی الرابع ان الناس یحترمونہ و یقال أن قبرفاطمۃ الزھراء بہ فبدا لحد القبروبعض عظامہ أخبرنی بذلک جمع شاھدوہ ثم لما تمت ھذہ القبۃ تشققت أعالیھا فرمت فلم ینفع الترمیم فیھا لخسۃ مؤنتھا فقوض الأشرف قایتبای أعزاﷲ أنصارہ وأعلی فی سلوک العدل منارۃ للشجاعی شاہین الجمالی النظر فی ذلک وفی المنارۃ الرئیسیۃ السابق ذکرھا فی الثامن وولاہ شیخ لخدام وناظرالحرم فاقتضی الرأی بعد مراجعۃ أھل الخبرۃ ھدم المنارۃ کلھا وھدم أعالی ھذہ القبۃ واختصار یسیرمنھا فأتخذ أخشابا فی طاقاتھا وأتخذ سقفا ھناک یمنع ما یسقط عند الھدم بالحجرۃ الشریفۃ ثم ھدم أعالیھا وأعاد بناء ہ مع الأحکام بحیث أتخذ فی بنائھا الجبس الأبیض حملہ معہ من مصرفجاء ت متقنۃ وأتخذ أساقیل شرقی المسجد لصعود العمال فی عمارتھا وعمارۃ تلک المنارۃ ولم تنتھک حرمۃ المسجد فی دعۃ وسکون وکان العمارۃ لیست بہ وکان فی زمن غیرہ کالسوق ذلک فضل اﷲ یؤتیہ من یشاء وکان ذلک فی عام اثنتین وتسعین وثمانمائۃ."

(خلاصۃ الوفاء بأخباردارالمصطفی ۱/۱۴۸)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200973

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں