بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نبی ﷺ کا اپنے دو صحابہ کو فرمانا: ’’فداك أبي و أمي‘‘ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں!


سوال

نبی ﷺ نے کون سے صحابی کو کہا تھا میرے والدین آپ پر قربان ہیں؟

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نےیہ جملہ   ’’فداك أبي و أمي‘‘ (میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں) مختلف مواقع پر دو الگ الگ صحابیوں سے ارشاد فرمایا تھا:

1۔   حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ،          2۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ۔

مذکورہ جملہ عام بول چال میں گرم جوشی اور محبت کے اظہار کے لیے بولا جاتا ہے، اس جملہ کا مطلب مخاطب کو اپنے والدین پر ترجیح دینا نہیں ہوتا۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا قصہ مسلم شریف میں اس طرح لکھا ہے کہ  جنگِ اُحد کے دن ایک مشرک نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی آگ گرم کر رکھی تھی، (یعنی بہت نقصان پہنچا رہا تھا) اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اے سعد! اسے تیر مارو، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ پھر میں نے ایک بے پھل تیر نکا ل کر اس مشرک کو مارا تو وہ تیر اس کے پہلو سے دل میں گھس گیا جس کی وجہ سے وہ مشرک گر پڑا اور اس کا ازار بھی کھل گیا، اس مشرک کی ہلاکت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اتنا مسکرائے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ڈاڑھ مبارک تک دیکھ لی۔

بخاری شریف کی روایت میں خود رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے ترکش مبارک سے تیر نکال کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو دینا بھی منقول ہے۔

حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا قصہ بخاری شریف میں اس طرح لکھا ہے کہ آپ کے صاحب زادے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جنگِ احزاب کے دن میں اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ خواتین میں تھے کہ اتنے میں میں نے دو تین مرتبہ اپنے والد حضرت زبیر کو دیکھا کہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار بنی قریظہ کی طرف آ جا رہے ہیں، جب میں واپس لوٹا تو میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ ابا جان! میں نے اس طرح آپ کو آتے جاتے دیکھا تھا، یہ کیا ماجرا تھا؟ تو میرے والد نے فرمایا کہ بیٹا! کیا تم نے مجھے واقعی دیکھ لیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں! تو میرے والد نے فرمایا کہ (اصل بات یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ کون شخص ہے جو بنو قریظہ تک جائے اور وہاں کی خبر میرے پاس لائے؟ تو (اس سعادت کو حاصل کرنے کے لیے) میں وہاں گیا تھا، پھر جب میں وہاں سے واپس لوٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔

صحيح مسلم (ج:4، ص:1876، ط:دار إحياء التراث العربي):

’’عن عامر بن سعد، عن أبيه رضي الله عنهما، أن النبي صلى الله عليه و سلم جمع له أبويه يوم أحد، قال: كان رجل من المشركين قد أحرق المسلمين، فقال له النبي صلى الله عليه و سلم: «ارم فداك أبي و أمي»، قال: فنزعت له بسهم ليس فيه نصل، فأصبت جنبه فسقط، فانكشفت عورته فضحك رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى نظرت إلى نواجذه.‘‘

صحيح البخاري (ج:5، ص:97، ط:دار طوق النجاة):

’’حدثنا هاشم بن هاشم السعدي، قال: سمعت سعيد بن المسيب، يقول: سمعت سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه، يقول: نثل لي النبي صلى الله عليه و سلم كنانته يوم أحد، فقال: «ارم فداك أبي و أمي».‘‘

صحيح البخاري (ج:5، ص:21، ط:دار طوق النجاة):

’’عن عبد الله بن الزبير رضي الله عنهما، قال: كنت يوم الأحزاب جعلت أنا و عمر بن أبي سلمة في النساء، فنظرت فإذا أنا بالزبير على فرسه يختلف إلى بني قريظة مرتين أو ثلاثا، فلما رجعت قلت: يا أبت رأيتك تختلف؟ قال: أ و هل رأيتني يا بني؟ قلت: نعم، قال: كان رسول الله صلى الله عليه و سلم، قال: «من يأت بني قريظة فيأتيني بخبرهم». فانطلقت، فلما رجعت جمع لي رسول الله صلى الله عليه و سلم أبويه فقال: «فداك أبي و أمي».‘‘

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144206201039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں