بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نبی کی جنازہ کیوں؟


سوال

مسلمان میت پر نماز جنازہ کیوں پڑھتے ہیں؟ اور نماز جنازہ بخشش کے لیے پڑھتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی جنازہ کیوں پڑھی گئی اور شہید اور نابالغ بچوں کے لیے بخشش کی ضرورت نہیں ہے، ان کی کیوں پڑھی جاتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ایک مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ شریعت سے جو عمل ثابت ہو اس پر بلا چوں وچراں عمل کرے، چاہے اس کی علل وحکمتیں سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں۔

شہداء کی نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے ہمارے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کی نماز جنازہ ادا کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اپنے بیٹے ابراہیم کی نماز جنازہ ادا فرمائی جو صغر سنی میں انتقال کرگئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر ملال پر اس وقت تمام موجود صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ ادا کی؛ لہٰذا ہمارے عمل کرنے کے لیے یہی دلیل کافی ہے۔

نیز میت کی نماز جنازہ جس طرح اس کے لیے استغفار اور شفاعت کے لیے پڑھی جاتی ہے، اسی طرح اس کی تکریم واکرام کے لیے پڑھی جاتی ہے، لہٰذا جب عام مسلمانوں کی تکریم کے لیے نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے تو نبی، شہید اور بچہ اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تکریم کرتے ہوئے ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے؛ تاکہ اس شہید کے درجات بلند ہوں اور جنازہ پڑھنے والے کو بھی اجر وثواب ملے۔

علاوہ ازیں ہر شہید کی شہادت کا مقبول ہونا اور اس کے تمام گناہ معاف ہو جانا ایک مخفی امر ہے، جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، یا بعض اوقات وحی کے ذریعے اللہ پاک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، جیساکہ روایت میں ہے کہ ایک غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام کو اندھا تیر آکر لگا اور وہ شہید ہوگئے، لوگوں نے مبارک باد دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مالِ غنیمت میں ایک چادر (یا اس قسم) کی خیانت کی وجہ سے اس کا مواخذہ ہورہاہے۔ الغرض شہید بھی دعاءِ مغفرت سے مستغنی نہیں ہے، غالب امکان یہی ہے کہ شہادت قبول ہوگی اور تمام گناہوں سے معافی کا ذریعہ بھی بنے گی، لیکن کسی درجے میں ریاکاری کی وجہ سے یا قرض وغیرہ ذمے میں باقی رہنے کی وجہ سے مواخذے کا امکان ہوسکتاہے، لہذا استغفار ہر حال میں زندہ اور مردہ لوگوں کے حق میں مفید ہے، خواہ گناہوں کی بخشش کے لیے ہو یا درجات کی بلندی کی صورت میں، جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی کثرت سے استغفار فرماتے رہے، اور ہمیں بھی نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ میں ہدایت کی دعا کا حکم ہے، گو دیکھنے کوئی شخص بہت ہی نیک اور پارسا ہو، اس کے لیے بھی نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنا اور  ہدایت کی طلب واجب ہے۔

نیز بچے کے لیے جو مانگی جاتی ہے اس کا فائدہ بچے کو بھی پہنچتا ہے کہ اس کے حق میں رحمت کی دعا ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت سے کوئی بھی کسی بھی حال میں مستغنی نہیں اور اس کے والدین کو بھی اس دعا کا فائدہ پہنچتا ہے، جیساکہ بچے کے لیے پڑھی جانے والی دعا سے واضح ہے کہ وہ پیچھے رہنے والوں کے لیے ذخیرۂ آخرت بنتا ہے۔

جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ سے متعلق سوال ہے تو اس بارے میں سیرت اور تاریخ  کی کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ عام مؤمنین کی طرح نہیں تھی، اس میں گناہوں کی بخشش کا سوال نہیں تھا، بلکہ امت  کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امانت ادا کرنے اور تبلیغ کا حق ادا کرنے کی گواہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اطہر کو اٹھاکر جنازہ گاہ میں لاکر اجتماعی نمازِ جنازہ معروف ہیئت پر نہیں ادا کی گئی، بلکہ چند لوگوں کی جماعت حجرۂ مبارکہ میں آتی تھی اور درودِ پاک وغیرہ دعائیہ کلمات کہہ کر چلی جاتی تھی، یوں مدینہ منورہ میں موجود تقریباً تمام مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے امت کی کامل خیر خواہی اور امانتِ رسالت کی ادائیگی کی گواہی دے کر امت کی طرف سے شکریہ ادا کیا۔

مستدرک حاکم میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَقِيلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: فَقَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمْزَةَ حِينَ فَاءَ النَّاسُ مِنَ الْقِتَالِ، فَقَالَ رَجُلٌ: رَأَيْتُهُ عِنْدَ تِلْكَ الشَّجَرَاتِ، وَهُوَ يَقُولُ: أَنَا أَسَدُ اللَّهِ وَأَسَدُ رَسُولِهِ، اللَّهُمَّ أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا جَاءَ بِهِ هَؤُلَاءِ أَبُو سُفْيَانَ وَأَصْحَابُهُ وَاعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ بِانْهِزَامِهِمْ. فَحَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ فَلَمَّا رَأَى جَنْبَهُ بَكَى وَلَمَّا رَأَى مَا مُثِّلَ بِهِ شَهَقَ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا كَفَنٌ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَرَمَى بِثَوْبٍ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَامَ آخَرُ فَرَمَى بِثَوْبٍ عَلَيْهِ فَقَالَ:يَا جَابِرُ هَذَا الثَّوْبُ لِأَبِيكَ وَهَذَا لِعَمِّي حَمْزَةُ، ثُمَّ جِيءَ بِحَمْزَةَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ يُجَاءُ بِالشُّهَدَاءِ، فَتُوضَعُ إِلَى جَانِبِ حَمْزَةَ، فَيُصَلِّي، ثُمَّ تَرْفَعُ، وَيَتْرُكُ حَمْزَةَ حَتَّى صَلَّى عَلَى الشُّهَدَاءِ كُلِّهِمْ، ........صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ".(رقم: 2557، ج: 2، ص: 130، ط: علمية)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

عن المغيرة بن شعبة يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: الطفل يصلي عليه.

(أبواب الجنائز، باب ما جاء في الصلاة على الطفل، رقم: 1508، ج: 2، ص: 473، ط: دارالرسالة العالمية)

وفيه أيضًا:

عن ابن عباس، قال: لما مات إبراهيم ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: إن له مرضعا في الجنة، ولو عاش لكان صديقا نبيا.

(أبواب الجنائز، باب ما جاء في الصلاة على ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم وذكر وفاته، رقم: 1511، ج: 2، ص: 474، ط: دار الرسالة)

سنن الکبری (بیہقی) میں ہے:

عن ابن عباس قال لما صلي على رسول الله صلى الله عليه وسلم أدخل الرجال فصلوا عليه بغير إمام إرسالا حتى فرغوا ثم أدخل النساء فصلين عليه ثم أدخل الصبيان فصلوا عليه ثم أدخل العبيد فصلوا عليه إرسالا لم يؤمهم على رسول الله صلى الله عليه وسلم أحد.

(كتاب الجنائز، باب الجماعة يصلون على الجنازة أفذاذا، رقم: 6907،  ج:4، ص: 48، ط: علمية)

فتح القدیر میں ہے:

(قوله ونحن نقول: الصلاة على الميت لإظهار كرامته) لا يخفى أن المقصود الأصلي من الصلاة نفسها الاستغفار له والشفاعة والتكريم، يستفاد إرادته من إيجاب ذلك على الناس فنقول: إذا أوجب الصلاة على الميت على المكلفين تكريما فلأن يوجبها عليهم على الشهيد أولى، لأن استحقاقه للكرامة أظهر (قوله كالنبي أو الصبي) لو اقتصر على النبي كان أولى، فإن الدعاء في الصلاة على الصبي لأبويه.

(كتاب الصلاة، باب الشهيد، 2/155، ط: علمية)

البحر الرائق میں ہے:

ولأن الصبي ليس بمستغن عن الرحمة فنفس الصلاة عليه رحمة له ونفس الدعاء الوارد لأبويه دعاء له؛ لأنه إذا كان فرطا لأبويه فقد تقدمهما في الخير لا سيما، وقد قالوا إن حسنات الصبي له لا لأبويه، ولهما ثواب التعليم. (كتاب الجنائز، باب صلاة الشهيد، 346/2، ط: علمية) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106200674

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں