بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ ﷺ کے زمانے میں خواتین کا ہاتھوں میں مہندی لگانے کا ثبوت


سوال

خواتين جو زينت کے لیے ہاتھوں میں مہندی لگاتی ہیں،  کیا اس کا ثبوت تعلیمِ نبوی یا صحابیات کے زمانے میں ملتا ہے؟

جواب

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں خواتین کا ہاتھ پر مہندی لگانے کا رواج تھا۔ چند احادیث  مع  ترجمہ  ذیل میں  درج ہیں :

سنن أبي داود (4 / 76):

1- "عن عائشة رضي الله عنها، أن هند بنت عتبة، قالت: يا نبي الله، بايعني، قال: «لاأبايعك حتى تغيري كفيك، كأنهما كفًّا سبع»."

ترجمہ : حضرت  ہند بنت عتبہ نے کہا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے بیعت کرلیجیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  میں تجھے بیعت نہیں کروں گا یہاں تک کہ تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو بدل دےو گویا کہ وہ کسی درندے کی ہتھیلیاں ہیں۔  (مقصد یہ ہے کہ بالکل عورتوں کے ہاتھ لگتے ہی نہیں، کچھ مہندی یا زیور سے آراستہ کرو؛ تاکہ مردوں کے ہاتھ سے مشابہت ختم ہوجائے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیعت میں عورتوں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے تھے، بلکہ الفاظ کہلوا دیتے تھے ۔)

سنن أبي داود (4 / 77):

2- "عن عائشة رضي الله عنها، قالت: أومت امرأة من وراء ستر، بيدها كتاب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبض النبي صلى الله عليه وسلم يده، فقال: «ما أدري أيد رجل، أم يد امرأة؟» قالت: بل امرأة، قال: «لو كنت امرأة لغيرت أظفارك» يعني بالحناء."

 ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے پردہ کی اوٹ سے اشارہ کیا،  اس کے ہاتھ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام خط تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک روک لیا، اور فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ کسی مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا؟ وہ کہنے لگی کہ عورت کا ہاتھ ہے،  فرمایا کہ اگر تو عورت ہوتی تو ضرور اپنے ہاتھوں کے ناخنوں کو مہندی کے ساتھ متغیر کردیتی۔

سنن أبي داود (4 / 76):

3- "أنّ امرأةً أتت عائشة رضي الله عنها، فسألتها عن خضاب الحناء، فقالت: «لا بأس به، ولكن أكرهه، كان حبيبي رسول الله صلى الله عليه وسلم يكره ريحه» . قال أبوداود: «تعني خضاب شعر الرأس»."

 

 ترجمہ : ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مہندی کے خضاب کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن میں اسے اس لیے ناپسند کرتی ہوں؛ کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی بو کو ناپسند فرماتے تھے۔(امام ابوداؤد فرماتے ہیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد  سر   کی مہندی ہے۔)

عون المعبود وحاشية ابن القيم (11 / 148):

"قاله القارىء (عن خضاب الحناء) بكسر وتشديد النون (لا بأس به) أي لا بأس بفعله فإنه مباح (كان حبيبي) وفي بعض النسخ حبي بكسر المهملة وتشديد الباء المكسورة وهما بمعنى (يكره ريحه) استدل الشافعي به على أن الحناء ليس بطيب لأنه كان يحب الطيب. وفيه أنه لا دلالة لاحتمال أن هذا النوع من الطيب لم يكن يلائم طبعه كما لا يلائم الزباد مثلا طبع البعض. كذا قال القارىء (قال أبو داود تعني خضاب شعر الرأس) لأن خضاب اليد لم يكن يكرهه صلى الله عليه وسلم كما في الحديثين الآتيين."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں