بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نبی کریم ﷺ کے مال کی زکوٰۃ / کرایہ کی گاڑی اور مکان پر زکوۃ


سوال

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ  حضرت محمد ﷺ نے کبھی زکوٰۃ نہیں دی، کیا یہ درست ہے؟ اگر نہیں تو کوئی واقعہ اس حوالہ سے بتادیں۔

2۔ اگر کوئی مکان یا کار ہم نےکرایہ پر دی ہوتو اس پر بھی زکوٰۃ ہوگی؟

جواب

1۔  انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے مال میں زکات واجب نہیں ہوتی، اس لیے کہ زکات مال کی گندگی کو دور کرنے اور اس کو پاک کرنے کے لیے ہوتی ہے، اور انبیاءِ کرام علیہم السلام کا مال ہر طرح کی گندگیوں اور میل کچیل سے پاک صاف ہوتا ہے،  نیز   زکات اس شخص پر فرض ہوتی ہے جو مال کا مالک ہو، اور چوں کہ حضرات انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتی، بلکہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا ہے، وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے امانت ہوتا ہے،  انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ و السلام، اللہ کے مال کو  اس کے مناسب مواقع پر خرچ کرتے ہیں، اور ان کے پاس موجود سارا مال ہی اللہ کی راہ میں وقف ہوتا ہے، اس وجہ سے انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام پر زکات فرض نہیں ہے۔

 مزید برآں رسول اللہ ﷺ مال آتے ہی اسے اللہ کے حکم کے مطابق صرف فرمادیتے تھے، کبھی آپ ﷺ کے پاس مال جمع نہیں ہوا، مرضِ وفات میں چھ یا سات دراہم (چاندی کے سکے) گھر پر آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو انہیں کسی مستحق کو دینے کی ہدایت فرمائی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی خدمت میں مشغولیت کی وجہ سے صرف نہ کرسکیں، تو دوبارہ دریافت فرمایا، انہوں نے خدمت کا عذر کیا، تو فرمایا: اللہ کے نبی ﷺ کا کیا گمان ہوگا اگر اللہ عز وجل سے اس حال میں ملے جب کہ یہ دراہم اس کے پاس ہوں گے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ کا ہر خرچ عبادت تھا۔

السيرة الحلبية = إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون (3/ 421):

"وإباحة ترك إخراج زكاة المال؛ لأنه كبقية الأنبياء لا ملك لهم مع الله، وما في أيديهم من المال وديعة لله عندهم يبذلونه في محله ويمنعونه في غير محله، ولأن الزكاة طهرة وهم مبرؤون من الدنس، كذا في الخصائص الصغرى نقلاً عن سيدي الشيخ تاج الدين بن عطاء الله".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 256):

"وفرضت في السنة الثانية قبل فرض رمضان، ولاتجب على الأنبياء إجماعاً. 

(قوله: ولاتجب على الأنبياء)؛ لأن الزكاة طهرة لمن عساه أن يتدنس، والأنبياء مبرءون منه، وأما قوله تعالى: {وأوصاني بالصلاة والزكاة ما دمت حياً} [مريم: 31] فالمراد بها زكاة النفس من الرذائل التي لاتليق بمقامات الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، أو أوصاني بتبليغ الزكاة، وليس المراد زكاة الفطر؛ لأن مقتضى جعل عدم الزكاة من خصوصياتهم أنه لا فرق بين زكاة المال والبدن، كذا أفاده الشبراملسي".

2۔ جو گاڑی یا گھر کرائے پر دیا ہوا ہو اس کی مالیت پر زکاۃ نہیں ہے، البتہ اس کار یا  گھر  سے حاصل ہونے والے کرایہ کی رقم تنہا یادیگر اموال کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائے، تو  زکاۃ کا سال مکمل ہونے پر جو رقم موجود ہو اس کی زکاۃ لازم ہوگی،   اور سال بھر میں جتنا کرایہ استعمال کرلیا اس پر کوئی زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں