بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1446ھ 23 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عقیقہ کرنا


سوال

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنا تو درست ہے بلکہ  اجر و ثواب و سعادت کا باعث ہے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عقیقہ کرنا درست نہیں، اس لیے کہ عقیقہ زندگی میں صرف ایک دفعہ مشروع ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ بذات خود کر لیا تھا، لہٰذا کسی اور کو  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عقیقہ  کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، اس کے بجائے نفلی قربانی کر لی جائے۔

فیض الباری میں ہے:

"رأيت في بعض الروايات أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بنفسه. والسر في العقيقة أن الله أعطاكم نفسا، فقربوا له أنتم أيضا بنفس، وهو السر في الأضحية. ولذا اشترطت سلامة الأعضاء في الموضعين، غير أن الأضحية سنوية، وتلك ‌عمرية."

(فيض الباري على صحيح البخاري،كتاب العقيقة،  باب إماطة الأذى عن الصبى فى العقيقة، 5/ 648، الناشر: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

نیل الاوطار میں ہے:

"2148 - وعن أبي رافع «أن الحسن بن علي - رضي الله عنهما - لما ولد أرادت أمه فاطمة - رضي الله عنها - أن تعق عنه بكبشين، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: لا تعقي عنه ولكن احلقي شعر رأسه فتصدقي بوزنه من الورق ثم ولد حسين - رضي الله عنه - فصنعت مثل ذلك» . رواه أحمد.

قوله: (لا تعقي عنه) قيل: يحمل هذا على أنه قد كان - صلى الله عليه وسلم - عق عنه، وهذا متعين لما قدمنا في رواية الترمذي والحاكم عن علي - رضي الله عنه."

(نيل الأوطار، كتاب العقيقة وسنة الولادة، 5/ 161، الناشر: دار الحديث، مصر)

عقیقہ کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

"مرحومین کے نام سے عقیقہ کرنا

بعض حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا دیگر مرحومین حضرات کے نام سے عقیقہ کرتے ہیں، یہ غلط رواج ہے کیونکہ عقیقہ زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہوتا ہے ، مرحومین کے لیے شریعت نے نفلی قربانی کی  اجازت دی ہے جس کا بہت بڑا ثواب ہے، نفلی قربانی زندہ اور مردہ دونوں کی طرف سے جتنی چاہیں کر سکتے ہیں لیکن عقیقہ نہیں کر سکتے کیونکہ شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی۔"

(عقیقہ کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا،ص۱۹۹، ط: بیت العمار)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611102430

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں