کیا ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر غزوہ میں جنگ لڑی؟
واضح رہےکہ شجاعت وبہادری صرف اس میں نہیں کہ میدان جنگ میں بہت سےکفار کو قتل کردیا جائے ،بلکہ أصل بہادری تو دل کی استقامت ،میدان جنگ میں ثابت قدمی،دشمنوں سے بے خوفی وغیرہ جیسے صفات میں پائی جاتی ہے ، آپﷺ کی ذات مبارکہ میں یہ صفات بدرجہ أتم موجود تھے،جس کا صحیح اندازہ غزوۂ حنین کی واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہوازن کے تیر اندازوں نے چاروں طرف سے اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں کو قدم جمانا مشکل ہوگیا،عین اسی وقت میں حضور اقدسﷺ مع چند رفقاء کے دشمنوں کے نرغہ میں تھے تو آپ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے یہ آواز صحابہ کو دلادی کہأين أصحاب السمرة؟آواز کانوں میں پہنچنا تھی کہ سب مسلمانوں نے پھر سے اپنا رخ میدان جنگ کے طرف کردیااور اس غزوۂ میں آپ ﷺ کی ثابت قدمی کی بدولت اللہ نے مسلمانوں کو فتح عطاء فرمائی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت اور استقامت کے باعث آپ کو مشرکین کی ایک بڑی تعداد کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی،نیزمیدان جنگ میں صحابہ کرام کی ایک جماعت ہر لمحہ آپﷺ کےاحاطہ کیے ہوئے آپ کی حفاظت کے خاطر اپنے جانوں کے فداکرنے کے لئے تیار رہتےتھے۔
لہذا غزوات میں آپﷺ کے قتال فرمانے کے حوالہ سےسیرت کے کتابوں میں سے’’سیرۃ حلبیہ‘‘ اور’’سبل الھدی والرشاد ‘‘میں یہ بات منقول ہےکہ حضور ﷺ نےغزوہ أحد کے علاوہ دیگر غزوات میں بذات خود کفار سےقتال نہیں کی ہے،نیز أبی بن خلف کے علاوہ کسی اورکے بارے میں معلوم نہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سےقتل کیا ہو، اورغزوہ أحد کے علاوہ جن غزوات میں حضورﷺ کی قتال فرمانے کا تذکرہ سیرت کے کتابوں میں ملتا ہے ،اُس سے مُراد ان کے نزدیک یہ ہے کہ حضور کی موجودگی اور نگرانی میں صحابہ کرام نے کفا رسے قتال کردی ہے تو بوجہ أمارت اور سربراہی حضور ﷺ کے یہ کہا جاتا ہے کہ:قاتل فيھا رسول الله ﷺ۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعن عباس رضي الله عنه، قال: شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين، فلما التقى المسلمون والكفار، ولى المسلمون مدبرين، فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يركض بغلته قبل الكفار وأنا آخذ بلجام بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم أكفها إرادة أن لا تسرع، وأبو سفيان بن الحارث آخذ بركاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي عباس! ناد أصحاب السمرة، فقال عباس - وكان رجلا صيتا - فقلت بأعلى صوتي: أين أصحاب السمرة؟ فقال: والله لكأن عطفتهم حين سمعوا صوتي عطفة البقر على أولادها. فقالوا: يا لبيك يا لبيك، قال: فاقتتلوا والكفار، والدعوة في الأنصار يقولون: يا معشر الأنصار! يا معشر الأنصار! قال: ثم قصرت الدعوة على بني الحارث بن الخزرج فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على بغلته كالمتطاول عليها إلى قتالهم. فقال: هذا حين حمي الوطيس. ثم أخذ حصيات، فرمى بهن وجوه الكفار، ثم قال: انهزموا ورب محمد،فوالله ما هو إلا أن رماهم بحصياته، فما زلت أرى حدهم كليلا وأمرهم مدبرا."
( کتاب الفضائل، باب فی المعجزات، 3790/9، ط: دار الفكر )
السیرۃ الحلبیہ لنور الدین حلبی میں ہے:
" والتي وقع فيها القتال من تلك الغزوات: أي وقع القتال فيها من أصحابه وهو المراد بقول بعضهم كالأصل التي قاتل فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم تسع .
وبما قررناه يعلم أن قول المواهب قاتل صلى الله عليه وسلم في تسع بنفسه،فيه نظر ظاهر، لأنه صلى الله عليه وسلم لم يقاتل بنفسه في شيء من تلك الغزوات إلا في أحد كما سيأتي، وكأنه اغتر في ذلك بقول بعضهم المتقدم قاتل فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد علمت المراد منه والله أعلم."
(باب ذكر مغازيه صلى الله عليه وسلم، 169/2، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)
سبل الھدی والرشاد فی سیرۃخیر العبادمیں ہے:
"وروى مسلم عن بريدة بن الحصيب رضي الله تعالى عنه قال: قاتل رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثمان غزوات قال النّوويّ: لعل بريدة أسقط غزوة الفتح ويكون مذهبه أنها فتحت صلحا- كما قال الشافعيّ وموافقوه- قلت: والتوجيه السابق أقعد.قال الحافظ أبو العباس الحراني رحمه الله في الرد على ابن المطهر الرافض: لا يفهم من قولهم أنه صلى الله عليه وسلم قاتل في كذا وكذا أنه قاتل بنفسه كما فهمه بعض الطلبة ممن لا اطلاع له على أحواله صلى الله عليه وسلم، ولا يعلم أنه قاتل بنفسه في غزوة إلا في أحد فقط. قال: ولا يعلم أنه ضرب أحدا بيده إلا أبي بن خلف، ضربه بحربة في يده. انتهى.قلت: وعلى ما ذكره يكون المراد بقولهم: قاتل في كذا وكذا أنه صلى الله عليه وسلم وقع بينه وبين عدوّه في هذه الغزوات قتال قاتلت فيها جيوشه بحضرته صلى الله عليه وسلم، بخلاف بقيّة الغزوات، فإنه لم يقع فيها قتال أصلا، لكن نقل الحافظ في الفتح عن ابن عقبة أنه قال: قاتل رسول الله صلى الله عليه وسلم بنفسه في ثمان غزوات."
( الباب الثانی، 8/4، ط: دار الكتب العلمية بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144502101188
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن