بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت محمد ﷺ کے متعلق علمِ غیب کا عقیدہ رکھنے والے اور بزرگوں سے مدد مانگنے کو جائز سمجھنے والے کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص  کہتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ما کان وما یکون کا علم اللہ نے دیاتو اس کا کیا حکم ہے؟ گمراہ  ہےیا مشرک،  اور جو کہتا کے بزرگ انتقال کے بعد بھی مدد کرتے ہیں اور مدد مانگنا جائز ہے  مگر کہتا ہے میں باطنی مدد کا قائل ہوں تواس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ کی صفاتِ خاصہ میں سے ہے، صفاتِ خاصہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ صفات کسی دوسری ہستی میں نہیں پائی جاسکتیں، البتہ رسول اللہ ﷺ کو جو لوگ ’’عالم الغیب‘‘  کہتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں ان کا یہ عقیدہ قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ کے خلاف ہے، اور ایسا عقیدہ رکھنے والے کو "گم راہ"  کہاجاسکتاہے، لیکن کافر نہیں کہا جائے گا؛ کیوں کہ ان کے اس عقیدہ میں تاویل کی گنجائش ہے، اور کفر کے باب میں نہایت احتیاط و حزم کی ضرورت ہے۔تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا  علمِ غیب  ہے یا یہ کہ غیب سے مراد مغیبات ہیں، اور  جناب  رسول اللہ ﷺ، اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے بہت سارے مغیبات کو جانتے ہیں،اور اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ جس طرح کا علمِ غیب اللہ تعالی کو حاصل ہے اس طرح کا علمِ غیب حضور ﷺ کو بھی حاصل ہے تو اس طرح کا عقیدہ رکھنا شرکیہ عقیدہ ہے، اور ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے،اسی طرح بزرگوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ اس میں ذاتی طور پر قدرت و طاقت ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، یہ شرک اور کفر ہے، اسی طرح  کسی غیر خدا کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس کو خدا نے تمام اختیار دے دیے  ہیں اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے، ہر قسم کی مرادیں ہر جگہ سے اس سے مانگنی چاہیے، یا اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کوئی صفت کسی غیر اللہ میں ماننا یہ بھی شرک ہے جو  ناجائز  اور حرام ہے۔مشکل کشا، حاجت روا اور متصرف فی الامور ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔

نوٹ:باطنی مدد سے سائل کا کیا مطلب ہے وضاحت کرکے دوبارہ سوال کریں۔

روح المعانی میں ہے:

"أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقد عده أناس من العلماء شركا وأن لا يكنه، فهو قريب منه ولا أرى أحدا ممن يقول ذلك إلا وهو يعتقد أن المدعو الحي الغائب أو الميت المغيب يعلم الغيب أو يسمع النداء ويقدر بالذات أو بالغير على جلب الخير ودفع الأذى وإلا لما دعاه ولا فتح فاه، وفي ذلك بلاء من ربكم عظيم، فالحزم التجنب عن ذلك وعدم الطلب إلا من الله تعالى القوي الغني الفعال لما يريد."

(‌‌سورة المائدة، الآيت:27-37، ج:3، ص:298، ط:دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الخانية والخلاصة لو ‌تزوج ‌بشهادة ‌الله ‌ورسوله لا ينعقد ويكفر لاعتقاده أن النبيﷺ يعلم الغيب."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:94، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"و في الحجة: ذكر في الملتقط: أنه لایكفر؛ لأنّ الأشیاء تعرض على روح النبي ﷺ، و أنّ الرسل یعرفون بعض الغیب ... قلت: بل ذكروا في كتب العقائد: أنّ من جملة كرامات الأولیاء الاطلاع على بعض المغیبات."

( كتاب النکاح، قبیل فصل المحرمات، ج:3، ص:27، ط: سعید)

وفيه ايضاً:

"قلت: ‌وحاصله ‌أن ‌دعوى ‌علم الغيب معارضة لنص القرآن فيكفر بها، إلا إذا أسند ذلك صريحا أو دلالة إلى سبب من الله تعالى كوحي أو إلهام، وكذا لو أسنده إلى أمارة عادية يجعل الله تعالى. قال صاحب الهداية في كتابه مختارات النوازل: وأما ‌علم النجوم فهو في نفسه حسن غير مذموم، إذ هو قسمان: حسابي وإنه حق وقد نطق به الكتاب. قال تعالى - {الشمس والقمر بحسبان} [الرحمن: 5]- أي سيرهما بحسبان. واستدلالي بسير النجوم وحركة الأفلاك على الحوادث بقضاء الله تعالى وقدره، وهو جائز كاستدلال الطبيب بالنبض على الصحة والمرض، ولو لم يعتقد بقضاء الله تعالى أو ادعى ‌علم الغيب بنفسه يكفر اهـ."

(كتاب الجهاد، باب المرتد، مطلب في دعوی علم الغیب، ج:4، ص:243، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں