بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابینا افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے قائم ادارہ میں زکات دینا


سوال

نابینا افراد کی تعلیم و تربیت  کے لیے ایک ادارہ ترتیب دیا ہے جس میں کوئی سرکاری حصہ نہیں۔ کیا وہاں زکات اور فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ استحقاق زکات کے لیے نابینا ہونا شرعًا کافی نہیں، بلکہ مستحق  ہونا  شرعًا ضروری ہے، مستحق سے مراد ایسا  مسلمان شخص ہے  جو  سید، عباسی، جعفری، عقیلی، علوی، نہ ہو اور اس کی ملکیت میں   ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ  چاندی  یا ان کے  مساوی نقدی جو ضروریات زندگی سے زائد ہو، یا کچھ سونا کچھ چاندی، یا سونا یا چاندی کے ساتھ کچھ نقدی جن کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی ہو،  یا استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، موجود نہ ہو، پس اگر مذکورہ ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والے نابینا افراد مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں مستحق ہوں تو انہیں زکات  دی  جا سکتی ہے، تاہم ادارہ  کے ذمہ داروں پر لازم ہوگا کہ وہ زکات کی رقم  مستحق افراد کو مالک بنا کر دیں، ان کو مالک بنائے بغیر زکات کی رقم ان پر خرچ کرنے سے بھی زکات ادا نہ ہوگی، اسی طرح تعمیرات اور تنخواہوں میں بھی زکات صرف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے: 

"وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرًا فلايجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملًا عليها لقوله تعالى: {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل}[التوبة: 60] جعل الله تعالى الصدقات للأصناف المذكورين بحرف اللام وأنه للاختصاص فيقتضي اختصاصهم باستحقاقها فلو جاز صرفها إلى غيرهم لبطل الاختصاص وهذا لا يجوز والآية خرجت لبيان مواضع الصدقات ومصارفها ومستحقيها وهم وإن اختلفت أساميهم فسبب الاستحقاق في الكل واحد وهو الحاجة إلا العاملين عليها فإنهم مع غناهم يستحقون العمالة؛ لأن السبب في حقهم العمالة لما نذكر ثم لا بد من بيان معاني هذه الأسماء.

أما الفقراء والمساكين فلا خلاف في أن كل واحد منهما جنس على حدة وهو الصحيح لما نذكر... ومنها أن يكون مسلما فلا يجوز صرف الزكاة إلى الكافر بلا خلاف لحديث معاذ - رضي الله عنه - «خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» أمر بوضع الزكاة في فقراء من يؤخذ من أغنيائهم وهم المسلمون فلا يجوز وضعها في غيرهم."

( كتاب الزكاة، فصل الذي يرجع إلى المؤدى إليه، ٢ / ٤٣ - ٤٩، دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

(قوله: ولا يجوز صرفها لأهل البدع)...  فالمراد هنا بالبدع المكفرات تأمل ( كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة و العشر، ٢ / ٣٥٤، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم

نوٹ: دار الافتاء  کی جانب سے محض  سوال کا جواب دیا گیا ہے، کسی ادارہ کے حوالہ سے سفارش یا اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔


فتوی نمبر : 144209200269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں