بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جُمادى الأولى 1446ھ 13 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بلوغت سے پہلے فوت ہونے والے بچے مرنے کے بعد کہاں اور کس عمر میں ہوں گے؟ / نابالغ کے لیے دعائے مغفرت کا حکم


سوال

میرے بچے کا کچھ دن پہلے انتقال ہوگیا ہے ،وہ ہماری اکلوتی اولاد تھی ،جس کی عمر  سات سال تھی ،میں اس صدمہ سے ابھی تک  باہر نہیں نکل سکی ،میرا سوال یہ ہے کہ نابالغ بچہ فوت ہونے کے بعد قبر میں اللہ ان کے ساتھ کیا معا ملہ کرتا ہے ان کی روح کہاں ہوتی ہے ؟اور کس حال میں ؟دوسرا یہ کہ وہ بچہ آخرت میں بڑا ہو کے جنت میں جائے گا یا بچہ ہی جنت میں  داخل ہوگا اور دنیا کے والدین سے ملے گا اور وہاں بھی ان کے ایسے ہی محبت ہوگی اور کیا دعا کرنا ان کے حق میں فائدہ مند ہے یا ویسے وہ گناہوں سے بری ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ مسلمانوں کی نابالغ اولاد کو انتقال کے بعد بچپن کی حالت میں جنت میں ٹھکانہ دیاجاتاہےاور اپنے دنیا کے والدین کے ساتھ ہوتے ہیں۔

جیسا کہ روایت میں ہے  :

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ (جنت و دوزخ کے سلسلہ میں) مسلمان بچوں کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اپنے باپوں کے تابع ہیں، یعنی وہ اپنے باپوں کے ساتھ جنت میں ہیں،   میں نے عرض کیا:  یا رسول اللہ ! بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ‘‘۔

نیز  وہ بچے جو نابالغی میں انتقال کرگئے وہ آخرت میں اپنے والدین کی سفارش کا ذریعہ بھی بنیں گے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جس مسلمان کے تین بچے نابالغ مریں گے وہ جنت کے آٹھوں دروازوں سے اس کا استقبال کریں گے کہ جس سے چاہے داخل ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یا دو؟ فرمایا: دو (پر بھی اجر ہے)، عرض کیا گیا: یا ایک؟، فرمایا: یا ایک (پر بھی اجر ہے)۔ پھر فرمایا: قسم اس  ذات کی جس کے  قبضہ میں میری جان ہے کہ جو بچہ اپنی والدہ کے پیٹ میں (روح پھونکے جانے سے پہلے ) ہی ساقط (ضائع) ہو گیا اگر ثوابِ الہی کی امید میں اس کی ماں صبر کرے تو وہ اپنی نال (ناف سے ملے ہوئے حصے) سے اپنی ماں کو جنت میں کھینچ لے جائے گا۔‘‘

 اور بچے کو اگر چہ مغفرت کی دعا کی ضرورت نہیں ہے، لیکن  بچہ کے لیے دعا کرنے سے بچہ کو بھی درجات کی بلندی کا فائدہ ہوتا ہے۔

تفسیر مظہری میں ہے :

"‌واما ‌أولاد ‌المسلمين فلم يجر فيهم خلاف بل الإجماع انهم فى الجنة والله اعلم."

(ج:5،ص:427،مکتبۃ الرشدیۃ)

حدیث میں ہے :

"وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قلت: يا رسول الله ذراري المؤمنين؟ قال: «من آبائهم» . فقلت: يا رسول الله بلا عمل؟ قال: «‌الله ‌أعلم ‌بما ‌كانوا ‌عاملين» . قلت فذاراري المشركين؟ قال: «من آبائهم» . قلت: بلا عمل؟ قال: «‌الله ‌أعلم ‌بما ‌كانوا ‌عاملين» . رواه أبو داود".

( مشکاۃ المصابیح ،کتاب الایمان،باب الایمان بالقدر،ج:1،ص:39،المکتب الاسلامی)

مسند احمد میں ہے :

"عن معاذ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مسلمين يتوفى لهما ثلاثة إلا أدخلهما الله الجنة بفضل رحمته إياهما» . فقالوا: يا رسول الله أو اثنان؟ قال: «أو اثنان» . قالوا: أو واحد؟ قال: «أو واحد» . ثم قال: «والذي نفسي بيده إن السقط ليجر أمه بسرره إلى الجنة إذا احتسبته»."

(حدیث معاذ بن جبل ،ج:36،ص:410،موسسۃ الرسالۃ)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولا يستغفر فيها لصبي ومجنون) ومعتوه لعدم تكليفهم (بل يقول بعد دعاء البالغين: اللهم اجعله لنا فرطا) بفتحتين: أي سابقا إلى الحوض ليهيئ الماء، وهو دعاء له أيضا بتقدمه في الخير، لا سيما، وقد قالوا: حسنات الصبي له لا لأبويه بل لهما ثواب التعليم.

(قوله: وهو دعاء له) أي للصبي أيضا: أي كما هو دعاء لوالديه وللمصلين لأنه لا يهيئ الماء لدفع الظمأ أو مصالح والديه في دار القرار إلا إذا كان متقدما في الخير، وهو جواب عن سؤال، حاصله أن هذا دعاء للأحياء، ولا نفع للميت فيه ط (قوله لا سيما وقد قالوا إلخ) حاصله أنه إذا كانت حسناته: أي ثوابها له يكون أهلا للجزاء والثواب، فناسب أن يكون ذلك دعاء له أيضا لينتفع به يوم الجزاء".

(باب صلاۃ الجنازۃ،ج:2،ص:215،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101953

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں