بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ لڑکی کے بال کاٹنے کا حکم


سوال

کیا نابالغ لڑکی کے بال کاٹنا جائز ہے؛ تاکہ بال ٹھیک سے آئیں؟

جواب

نابالغ لڑکی کے بال سات سال کی عمر تک کاٹنے یا مونڈنے کی اجازت ہے خواہ کسی بھی ضرورت سے ہو۔ اور بالغ لڑکیوں اور خواتین کے لیے بال کٹوانا یا منڈوانا ناجائز ہے، اور گناہ اور لعنت کا باعث ہے، حتیٰ کہ شوہر کے کہنے پر بھی بال کٹوانا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر بال سرین سے نیچے تک بڑے ہوجائیں اور عیب دار معلوم ہوتے ہوں تو سرین سے نیچے والے زائد بال کاٹنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح علاج کی شدید مجبوری میں بال مونڈنے کی بھی اجازت ہے۔

اور اس غرض سے کہ بال لمبے اور گھنے آئیں بالوں کے خراب سروں کو صرف ایک پور یعنی انگلی کے ایک تہائی حصہ کے بقدر کاٹنے کی اجازت ہے۔ لیکن بطورِ فیشن یا مردوں کے مشابہ (بوائے کٹ وغیرہ) بال کٹوانے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہے۔

سنن الترمذي (ج:2، ص:249، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت):

’’عن عائشة رضي الله عنها، أن النبي صلى الله عليه و سلم نهى أن تحلق المرأة رأسها.‘‘

ترجمہ: ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کو اپنا سر حلق کرنے (مونڈنے) سے منع فرمایا۔‘‘

سنن أبي داود (ج:4، ص:60، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت):

’’عن ابن عباس رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه و سلم: «أنه لعن المتشبهات من النساء بالرجال، و المتشبهين من الرجال بالنساء».‘‘

ترجمہ: ’’حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور (لعنت فرمائی) ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔‘‘

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:2، ص:141، ط: دار الكتب العلمية):

’’و لا حلق على المرأة لما روي عن ابن عباس - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه قال: «ليس على النساء حلق، و إنما عليهن تقصير»، و روت عائشة -رضي الله عنها- أن «النبي صلى الله عليه و سلم نهى المرأة أن تحلق رأسها» ، و لأن الحلق في النساء مثلة، و لهذا لم تفعله واحدة من نساء رسول الله صلى الله عليه و سلم  و لكنها تقصر فتأخذ من أطراف شعرها قدر أنملة لما روي عن عمر - رضي الله عنه - أنه سئل فقيل له: كم تقصر المرأة؟، فقال: مثل هذه، و أشار إلى أنملته، و ليس على الحاج إذا حلق أن يأخذ من لحيته شيئًا، و قال الشافعي إذا حلق ينبغي أن يأخذ من لحيته شيئًا لله تعالى، و هذا ليس بشيء؛ لأن الواجب حلق الرأس بالنص الذي تلونا، و لأن حلق اللحية من باب المثلة؛ لأن الله تعالى زين الرجال باللحى و النساء بالذوائب على ما روي في الحديث «إن لله تعالى ملائكةً تسبيحهم سبحان من زين الرجال باللحى، و النساء بالذوائب»، و لأن ذلك تشبه بالنصارى فيكره.‘‘

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج:8، ص:233، ط: دار الكتاب الإسلامي):

’’و إذا حلقت المرأة شعر رأسها فإن كان لوجع أصابها فلا بأس به، و إن حلقت تشبه الرجال فهو مكروه، و إذا وصلت شعرها بشعر غيرها فهو مكروه.‘‘

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:6، ص:407، ط: دار الفكر-بيروت):

’’قطعت شعر رأسها أثمت و لعنت، زاد في البزازية: و إن بإذن الزوج؛ لأنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، و لذا يحرم على الرجل قطع لحيته، و المعنى المؤثر التشبه بالرجال.‘‘

الفتاوى الهندية (ج:5، ص:358، ط: دار الفكر):

’’و لو حلقت المرأة رأسها فإن فعلت لوجع أصابها لا بأس به، و إن فعلت ذلك تشبهًا بالرجل فهو مكروه، كذا في الكبرى.‘‘

روح البيان (ج:1، ص:222، ط: دار الفكر-بيروت):

’’كما ان حلق شعر الرأس في حق المرأة مثلة منهى عنها و تشبه بالرجال و تفويت للزينة كذلك حلق اللحية مثلة في حق الرجال و تشبه بالنساء منهى عنه و تفويت للزينة قال الفقهاء اللحية في وقتها جمال و في حلقها تفويته على الكمال و من تسبيح الملائكة سبحان من زين الرجال باللحى و زين النساء بالذوائب.‘‘

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144201201446

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں