بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ کو زکات دینا


سوال

ایک نا بالغ بچہ ہے، والدین حیات ہیں ؛لیکن اس بچے پر تعلیم کے لئے توجہ نہیں دیتے تو اس صورت میں اس بچے کو زکوۃ سے مدد کرکے تعلیم دلا سکتے ہیں؟ جواب عطاء فرمائیں بڑی کرم نوازی ہوگی.

جواب

واضح رہے کہ زکوٰۃ کے ادا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ زکوٰۃ کے مستحق شخص کو  مالک بنا کر زکات ادا کی جائے ، مالک بنائے بغیر کسی غریب کی ضرورت میں رقم خرچ کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی؛لہذا صورت ِمسئولہ میں اگر نابالغ بچے کا والد غریب اور زکوٰۃ کے مستحق  ہو نیز  سید گھرانہ  نہ ہو اور  بچہ  عقل مند اور سمجھ دار ہو، مال پر قبضہ اور ملکیت کو سمجھتا ہو تو اس کو زکاۃ کا مالک بنا کر تعلیم دلا سکتے ہیں  ، اور اگر قبضے کو نہ سمجھتا ہو اور لین دین کے قابل نہ ہو تو ایسے بچہ کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔ تاہم اگر بچے کا ولی (بھائی، چچا وغیرہ) بچے  کی طرف سے قبضہ کرے تو ادا ہو جائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز."

(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلا يصح إلا بالدفع ‌إلى ‌ولي ‌الصغير."

(کتاب الزکات،فروع فی مصرف الزکاۃ،ج:۲،ص:۳۵۶،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں