بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچوں کو پہلی صف میں کھڑے ہونے کا حکم


سوال

 اگر پہلی صف میں جگہ ہو تونابالغ بچوں کو پہلی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں؟کچھ نمازی کہتے ہیں آگے کھڑا کریں اور کچھ نمازی کہتے ہیں کہ پیچھے  کھڑا کریں ۔

جواب

واضح رہےکہ  اگر ایک ہی نابالغ بچہ ہو تو اسے بالغوں کی صف میں کھڑا کیا جائے اور اگر ایک سے زیادہ بچے ہوں تو بہتر یہ ہے کہ انہیں بالغوں کی صف کے پیچھے کھڑا  کیا جائے، مگر اس زمانے میں نابالغ  بچوں کو مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہیے، کیوں کہ دو یا زیادہ بچے ایک جگہ جمع ہوکر  نہ صرف اپنی نماز خراب کریں گے، بلکہ دوسروں کی نماز میں بھی خلل ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں، تاہم ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ بچے کا سرپرست اسے اپنے ساتھ لے کر صف کی ایک جانب کھڑا ہو۔ نیز  بالغ اور باشرع افراد کی موجودگی میں پہلی صف میں امام کے قریب بچے نہ کھڑے ہوں، امام کے قریب وہ افراد کھڑے ہوں جو بوقتِ ضرورت امامت کرسکتے ہوں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ذكره في البحر بحثًا) قال الرحمتي: ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال، لأنّ المعهود منهم إذا اجتمع صبيّان فأكثر تبطل صلاة بعضهم ببعض و ربما تعدّى ضررهم إلى إفساد صلاة الرجال، انتهى."

(التحرير المختار، كتاب الصلاة، باب الإمامة  1 / 571 ط: سعيد)

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

"سوال: جمعہ اور عیدین کی نماز میں نابالغ صفِ اول میں کھڑا ہوسکتا ہے یا نہیں؟

جواب: نابالغ اگر متعدد ہوں تو مسنون یہ ہے کہ ان کی علیٰحدہ صف مردوں کے پیچھے کی جاوے، اگر ایک ہو تو بالغین ہی کی صف میں کھڑا ہوجاوے۔۔۔اس حکم میں صلواتِ خمسہ یا جمعہ یا عیدین کی کہیں تخصیص نہیں دیکھی، اسی طرح نابالغین کو تنہا ہونے کی شکل میں مردوں کی صف میں کھڑے ہونے کےمتعلق صفِ اول یا  ثانی کی بھی تخصیص نہیں دیکھی، بظاہر حکم عام ہے، لیکن امام کے قریب "أولو الأحلام و النھیٰ" کو کھڑے ہونے کا حکم رویات سے ثابت ہے، اس لیے اگر نابالغ صفِ اول میں کھڑا ہو تو ایک طرف کنارے پر ہو۔"

(فتاوٰی محمودیہ، 6/491، ط: ادارہ الفاروق)

فتاوٰی رشیدیہ میں ہے:

"نابالغ اگر ایک ہو تو اس کو صف کے ایک طرف کھڑا ہونا چاہیے، زیادہ ہوں تو پیچھے کھڑے ہو، صف کے بیچ کھڑے ہونے کا حکم نہیں"۔

(فتاوٰی رشیدیہ، ص: 365، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام)

أحسن الفتاوٰی میں ہے:

"بچوں کو پیچھے کھڑا کرنا مستحب ہے، اگر ان سے کسی شرارت اور اپنی نمازیں خراب کرنے اور دوسروں کی نمازوں میں خلل ڈالنے کا اندیشہ نہ ہو تو اسی پر عمل کرنا چاہیے، مگر اس زمانہ میں مشاہدہ ہے کہ جب بچے اکھٹے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ ضرور شرارت کرتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، ہنستے ہیں، جس سے ان کی اپنی نماز تو خراب ہوتی ہی ہے، بالغین کی نمازوں میں بھی شدید خلل ہوتا ہے، اسی بناء پر بعض متاخرین فقہاء رحمھم اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی ہے کہ بچوں کو بالغین کی صف میں کھڑا کرنا ہی متعین ہے، چناں چہ علامہ رافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قال الرحمتي: ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال؛ لأن المعهود منهم إذا اجتمع صبيان فأكثر تبطل صلاۃ بعضهم ببعض وربما تعدی ضررهم إلي إفساد صلاة الرجال. انتهي. سندي.

خلاصہ یہ ہے کہ بچوں کو پیچھے کھڑا کرنا مستحب لعینہ ہے اور عوارضِ مذکورہ کی بنا  پر بالغین کی صفوں میں متفرق کھڑا کرنا مستحب لغیرہ ہے، جو خاص حالات وضرورتِ شدیدہ کے وقت درجۂ واجب تک بھی پہنچ سکتا ہے، جیسا کہ علامہ رافعی کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے"۔

(تتمہ احسن الفتاوٰی، 10/302، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں