بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچوں کے مال سے متعلق والدین کے لیے احکام


سوال

1-  کیا ایسا بچہ جو باتیں کرلیتا ہے جیسے 2 يا 3 سال کا بچہ ہم اس سے پوچھتے ہیں: بیٹا کیا آپ کی فلاں چیز کسی کو دے دیں؟ یا ہم وہ کوئی چیز کھاتا ہے تو اگر وہ اپنی مرضی سے دے یا ہم بھی اگر اس سے مانگیں تو وہ بچہ اپنی مرضی سے دے، کیا یہ جائز ہے یا ہمیں اس کی بھی قیمت اسے دینی پڑے گی؟

2- جو کوئی تحفہ کسی کی طرف سے آیا ہے مثلاً جوتے کپڑے اس کو اچھا خاصا استعمال کیا ہے، اب اس استعمال کے بعد ہم کیسے قیمت لگائیں، کیا بالکل اتنی لگائیں جتنی میں آیا ہو یا اندازے سے کم کرلیں؟ نیز اگر جو تحفہ آیا ہم فوراً اس کی قیمت لگا کر اپنی ملکیت میں کرنا چاہیں تو قیمت کا پتا نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ کیا اندازے سے لگا لیں؟ اور اگر ہم نے جو اندازا لگایا ہے وہ غلط نکلا تو کیا ہم گناہ گار ہیں؟

3-  کیا جو چیزیں استعمال کے لائق نہیں رہتیں اور وہ بچے کی ملکیت میں ہوتی ہیں جیسے کھلونوں کا ٹوٹ جانا، جوتے کپرے خراب ہوجائیں تو کیا والدین وہ اپنی مرضی سے پھینک سکتے ہیں، اس کی قیمت لگانے کی تو کوئی ضرورت نہیں؟

4- کیا نابالغ بچے کی مرضی سے ہم اس کی چیز خواہ کھانے کی ہو یا کوئی بھی کسی کو دے سکتے ہیں خواہ وہ نابالغ کسی بھی عمر کا ہو جیسے دو سے دس کا؟ اور کیا جب بچہ بالغ ہوجائے تو اس کی مرضی سے اس سے پوچھ کر اس کی چیزیں خود استعمال کر سکتے ہیں یا دوسروں کو دے سکتے ہیں؟

جواب

بچوں کو ان کے بچپن میں جو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں، ان کی مختلف صورتیں ہیں:

1۔ اگر وہ ایسی چیزیں ہیں  جو بچوں کے استعمال کی ہیں  یا  ان کی ضرورت کے موافق ہیں تو ایسی چیزیں ان بچوں ہی کی ملکیت ہوں گی،  والدین کے لیے ان چیزوں میں تصرف  کرنا یا وہ چیزیں کسی اور کو دینا جائز نہیں ہوگا۔

2۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور چیز ہو تو اس میں عرف ورواج کا اعتبار ہوگا، اگر عرف یہ ہے کہ  یہ تحفے تحائف ماں باپ کو دینا مقصودہوتے ہیں، صرف  ظاہراً  بچوں کے ہاتھ میں دیے جاتے ہوں، جیسا کہ عام طورپر عقیقہ وغیرہ کی تقریب میں ہوتا ہے تو ان چیزوں کے مالک والدین ہی ہوں گے، وہ اس میں جو چاہیں تصرف کرسکیں گے، پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر وہ چیزیں  والدہ کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو والدہ ان کی مالک ہے، اور اگروالد کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو  اس کا مالک والد ہے۔

3۔ اگر عرف یہ ہے کہ اس طرح کی تقریبات میں وہ چیزیں بچے ہی کو دی جاتی ہیں  تو پھر اس کا مالک بچہ ہی ہوگا۔

4۔ اگر  کسی موقع پر  ہدیہ دینے والے صراحت کردیں  یہ بچے کے لیے یا اس کی والدہ یا والد کے لیے ہے   تو جس کی صراحت کریں گے وہی اس کا مالک ہوگا۔

لہٰذا  نابالغ بچے کو تحفے میں ملی ہوئی چیزوں (کھلونے، کپڑے وغیرہ) اور اسی طرح نا بالغ بچے کو ہدیہ میں ملی ہوئی رقم سے خریدی ہوئی چیز (الماری، کپڑے، کھلونے وغیرہ) کو کوئی دوسرا بچہ (اس کے اپنے بہن بھائی یا کوئی اور بچہ) استعمال نہیں کر سکتا ہے، کیوں کہ یہ کپڑے بچے کی ملکیت ہوں گے اور جو کپڑے بچے کے ملکیتی ہوں تو  والدین کے لیے وہ کپڑے کسی اور کو دینا جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر کپڑے والدین نے بچوں کو بناکر دیے ہوں یا جوتے وغیرہ والدین نے لیے ہوں اور والدین  نے ان کو مالک نہیں بنایا، بلکہ دیتے ہوئے بطورِ استعمال دینے کی نیت ہو، یعنی ابھی یہ بچہ استعمال کرے گا، اور چھوٹے ہونے پر اس کے چھوٹے بہن بھائی استعمال کریں گے، تو دوسرے بہن بھائیوں یا کسی اور بچے کو یہ کپڑے یا جوتے وغیرہ دیے جاسکتے ہیں،  اور اگر  کسی اور نے  وہ کپڑے بچے  کو تحفے میں دیے ہیں  اور موسم کے ناموافق  ہونے یا کسی اور  وجہ سے بچے کے استعمال میں نہیں آسکے اور  نہ وہ کپڑے بعد میں بچے کے کام آسکتے ہیں تو ایسی صورت میں والدین یہ کرسکتے ہیں کہ کپڑے کسی اور کو  دے دیں  اور بعد میں اس کے عوض بچوں کو ان کے مناسب کوئی کپڑا بنا کردے دیں۔

نابالغ  بچوں کے مال سے خریدی گئی چیز ان سے خرید کر اپنی ملکیت بنانے کے بعد دوسرے بچوں کے استعمال میں لا نا یا  بیچ دینا درست ہے۔

 اگر  بچوں کی ملکیت کی کوئی چیز آپ آگے دے چکے ہوں تو اس کے عوض اور بدلہ میں ان بچوں کو  اسی چیز کی قیمت کے برابر کوئی دوسری چیز خرید کر دے دیں۔

کھانے پینے کی کوئی چیز بچے کو کوئی ہدیہ دے یا بچہ اپنی رقم سے خریدے  تو اس کے والدین اور بھائیوں کو اس میں سے کھانے کی اجازت نہیں ہے، اگر اس چیز کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو قیمت دے کر کھالے یا کسی اور کو دے دے، یا یہ صورت اختیار  کی جائے کہ ابھی اس چیز کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے  یا بچے کی یہ تربیت کرنے کے لیے کہ وہ تنہا  نہ کھائے، بلکہ سب کو کھلایا  بھی کرےتو اس کے ساتھ کھالے یا دوسرے بچوں کو ساتھ کھلادے، اور جب بعد میں  بچے کو کوئی چیز یا رقم دے تو اس میں  اس استعمال کردہ چیز کے عوض کی نیت کرلے تو اس سے بچے کی تربیت بھی ہوجائے گی اور نابالغ کے مال میں تصرف کا اشکال بھی نہیں ہوگا۔

اگر والدین اس چیز کو  بچے کے لیے نقصان دہ سمجھیں تو ان کو اس  کی اجازت ہے کہ وہ بچے کو وہ چیز استعمال کرنے یا کھانے   کے لیے نہ دیں، اور اپنی طرف سے بعد میں کوئی چیز دیتے ہوئے اس کے بدل کی نیت کرلیں۔

باقی استعمال شدہ اشیاء کی قیمت اندازے سے لگائی جائے  یا اس چیز کے ماہر سے قیمت معلوم کرلی جائے، اگر احتیاطًا تھوڑی زیادہ لگالی جائے تو بہتر ہے، تاکہ اندازا غلط ہونے کا امکان نہ رہے۔ جو چیزیں استعمال کے قابل نہ رہیں تو والدین کے لیے اسے پھینکنے کی بھی گنجائش ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں