بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچےکی امامت کاحکم


سوال

 نابالغ بچہ ایسے لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھا سکتا ہے جن لوگوں کو نماز پڑھنا نہ آتی ہو، اسی طرح ایسے گاؤں میں نماز پڑھا سکتا ہے جہاں امام نہیں ہے اور مقتدیوں میں سے کوئی بھی اس طرح قراءت پر قدرت نہیں رکھتا کہ نماز پڑھا سکے، خلاصہ یہ ہے کہ نابالغ گیارہ ، بارہ  سال کا بچہ جو با شعور اور نماز کے اہم مسائل سے واقفیت رکھتا ہے ایسے وقت میں جب اس کے علاوہ دوسرا کوئی نماز پڑھانے پر قدرت نہ رکھتا ہو،آیا اس کی امامت درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فقہائے کرام نے جہاں امامت کی شرائط کا ذکر فرمایا ہے وہاں منجملہ شرائط کے ایک شرط بلوغ کی بھی ذکر فرمائی ہے یعنی امامت کا اہل وہ شخص ہے جو بالغ ہو، نا بالغ بچہ بالغ لوگوں کی امامت کا اہل نہیں۔

  لہذا صورتِ  مسئولہ میں  نا بالغ بچہ  بالغ لوگوں کی امامت نہیں کرا سکتا، اگرچہ وہ عاقل ہی کیوں نہ ہو  ،اور بالغ آدمی کی اقتداء   نابالغ کے پیچھے درست نہیں ہے ، لہٰذا مذکورہ علاقے والوں کو  چاہیے کہ کسی بالغ امام صاحب  کا انتظام کریں جو ان کو نماز پڑھائے، اگر کسی (بالغ)امام صاحب کا انتطام نہ  ہوسکے تو کوئی بھی شخص جو قرآن درست طریقے سے پڑھتا ہو اس کو امامت  کے لیے آگے کردیا جائے، نیز ہر مسلمان کو  چاہیے کہ قرآن کریم کو درست طریقے سے پڑھنا سیکھے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وأما شروط الإمامة فقد عدها في نور الإيضاح على حدة فقال: وشروط الإمامة للرجال الأصحاء ستة أشياء: الإسلام والبلوغ والعقل والذكورة والقراءة والسلامة من الأعذار كالرعاف والفأفأة والتمتمة واللثغ وفقد شرط كطهارة وستر عورة. اهـ".

(کتاب الصلاۃ ،1/ 550، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں