بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغہ کی طلاق کی عدت کاحکم


سوال

 ایک لڑکی ہے  جس کی عمر  قانون کے لحاظ سے کم ہے ،اس کی شادی اور رخصتی کر دی گئی  ہے، مگر نکاح رجسٹر میں اندراج نہیں ہوا اور  کچھ ماہ کے بعد وہ گھریلو جھگڑے پر واپس میکے آ گئی اور کافی مہینوں سے وہ سسرال نہیں گئی، تو سسرال کی طرف سے طلاق دینے پر اس کی عدت کیا ہو گی ؟اور اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ شوہر کا بیوی کے ساتھ صحبت یا خلوتِ  صحیحہ  (میاں بیوی کا ایسی خلوت میں ملاقات کرنا کہ جہاں صحبت کے  لیے کوئی مانع نہ ہو)کے بعد طلاق دینے سےعدت واجب ہوجاتی ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ لڑکی پر طلاق کے وقت سے عدت واجب ہے ،جس کی تفصیل یہ ہے :کہ اگر لڑکی  کوحیض آتا ہے تواس کی عدت مکمل  تین حیض ہوگی ،اگر نابالغی کی وجہ سے حیض نہ آتاہو تو اس کی عدت تین ماہ ہو گی ،اور اگر حاملہ ہو توعدت وضع حمل ہوگی ۔

الدر المختار میں  ہے:

"(و سبب وجوبها) عقد (النكاح المتأكد بالتسليم و ما جرى مجراه) من موت أو خلوة أي صحيحة."

(الدر المختار، کتاب الطلاق، باب  العدۃ، (504/3)ط:دارالفکر بیروت) 

و فیه أیضًا:

"وهي في حق حرة تحيض لطلاق بعد الدخول حقيقةً أو حكمًا ثلاث حيض كوامل و العدة في حق من لم تحض لصغر بأن لم تبلغ تسعًا بأن ثلاثة أشهر بالأهلة لو في الغرة و إلا فبالأيام.و في حق الحامل وضع جميع حملها."

(الدرالمختار، کتاب الطلاق، باب العدۃ(3/ 504 - 511) ط:دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں