بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ نفلی صدقہ دے سکتا ہے یا نہیں ؟


سوال

مسجد سے چندہ کا ایک ڈبہ ملا ہے جو مسجد چلانے والی تنظیم ہے اس تنظیم کا ہے،جس میں لکھا ہے کہ اس میں صرف نفلی صدقہ ڈال سکتے ہیں،اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ نابالغ بچے اپني خرچی کے پیسے اس میں نہ ڈالیں۔پوچھنا یہ ہے کہ نا بالغ بچے اپنے پیسوں سے دکان سے چیز چپس وغیرہ لے سکتے ہیں لیکن وہ نفلی صدقہ میں اپنے پیسے نہیں ڈال سکتے ایسا کیوں؟

جواب

نابالغ کے مال میں نہ زکوۃ لازم ہے اور نہ ہی نابالغ صدقہ دینے کا اہل ہے ، اس لیے نابالغ اپنے مال کو صدقہ نہیں کرسکتا ، اگرچہ ولی (سرپرست )اسے اجازت ہی کیوں نہ دے۔ البتہ دنیاوی اعتبار سے خرید و فروخت میں پیسے دے کر اس کا دنیوی عوض اُسے حاصل ہورہا ہوتا ہے ، اس لیے وہ اپنے پیسوں سے کوئی چیز خریدنا چاہے تو یہ جائز ہے ۔ 

البتہ اگر والدین اپنا مال دے کر نابالغ سے کہیں کہ یہ رقم صدقہ کردوتو ایسا کرنا درست ہے، اس لیے کہ وہ درحقیقت نابالغ کا مال نہیں ہے، بلکہ والدین کا ہے، اور بچوں کو صدقہ دینے کا عادی بنانے کے لیے والدین ایسا کرتے ہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعاً) محضاً (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضاراً كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا وإن أذن به وليهما.

(قوله: والاتهاب) أي قبول الهبة وقبضها وكذا الصدقة، قهستاني (قوله: وإن ضاراً) أي من كل وجه أي ضرراً دنيوياً، وإن كان فيه نفع أخروي كالصدقة والقرض (قوله: كالطلاق والعتاق) ولو على مال فإنهما وضعاً لإزالة الملك وهي ضرر محض، ولايضر سقوط النفقة بالأول وحصول الثواب بالثاني، وغير ذلك مما لم يوضعا له إذ الاعتبار للوضع، وكذا الهبة والصدقة وغيرهما قهستاني".

(ج:6، ص:173، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں